سنگین غفلت میں محکمہ صحت بھی ملوث- تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔فائل فوٹو
سنگین غفلت میں محکمہ صحت بھی ملوث- تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔فائل فوٹو

ایکسپائربوسٹرویکسین سے دو سو پولیس اہلکاروں کی حالت خراب

خیرپورپولیس ٹریننگ سینٹر میں زیر تربیت دو سو سے زائد پولیس اہلکاروں کو کورونا سے بچائو کی زائد المیعاد بوسٹر ویکسین لگا دی گئی، جس کی وجہ سے کئی پولیس اہلکاروں کی طبیعت بگڑگئی۔ جبکہ بہت سے اہلکار مختلف نوعیت کے امراض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ جنہیں خیر پور سول اسپتال سمیت دیگر اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ زائد المیعاد ڈوز لگنے پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اورانہیں نوکری ختم کر دیے جانے کی دھمکیوں کے ساتھ ٹریننگ میں خصوصی رعایت دلانے کا لالچ بھی دیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں محکمہ صحت کے کئی افسران بھی ملوث ہیں، جنہوں نے ڈوز کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسے پولیس ٹریننگ سینٹر کو فراہم کیا جبکہ ٹریننگ سینٹر میں تعینات ذمے داران نے بنا کسی جانچ پڑتال کے ایکسپائرڈ ڈوز دو سو سے زائد اہلکاروں کو لگا دی۔ معاملہ کھلنے کے بعد اب اس سلسلے میں انکوائری کروائے جانے کے اعلانات سامنے آئے ہیں۔ مگر اس سنگین غفلت کا مرتکب کوئی بھی ذمے دار تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس ٹریننگ سینٹر میں سکھر زون اور لاڑکانہ زون سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار زیرتربیت ہیں۔ یہ افسوس ناک واقعہ 24 جنوری بروز پیر کو خیر پور پولیس ٹریننگ سینٹر میں پیش آیا تھا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جب ڈوز لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے آگے ان اہلکاروں کو ویکسین لگوانے کیلئے بھیجا گیا جو زیر تربیت تھے۔ جبکہ افسران اور دیگراہلکاروں نے ویکسین لگوانے سے گریز کیا۔ ویکسین کے زائد المعیاد ہونے کے بارے میں جب زیرِ تربیت پولیس اہلکاروں کو معلوم ہوا تو ان کی جانب سے اس صورتحال پر احتجاج کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس پر پولیس ٹریننگ سینٹر اور محکمہ صحت کے وہاں موجود افراد نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیئے جانے کی دھمکیاں دیں۔ جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو پولیس اہلکاروں کو چھٹیاں دینے اور تربیت میں سہولیات فراہم کرنے کا لالچ بھی دیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ زائد المعیاد ویکسین لگنے کے بعد کئی پولیس اہلکار مختلف نوعیت کے امراض کا شکار ہوگئے ہیں اور اس وقت سول اسپتال خیر پور سمیت دیگر اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ متاثرہ پولیس اہلکاروں کو سر درد، خارش، قے، دست اور گردوں میں درد کی شکایات ہوئی ہیں جنہیں اینٹی الرجی ادویات دی جا رہی ہیں۔ اس معاملے میں پولیس کے اعلی افسران کی جانب سے جلد از جلد انکوائری کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا۔ مگر اب تک اس معاملے کے کسی بھی ذمہ دار کو پولیس کی جانب سے حراست میں نہیں لیا گیا ہے اور نہ ہی اس سنگین غفلت پر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس ٹریننگ سینٹر انتظامیہ اس معاملے کے حقائق نامعلوم وجوہات کی بنا پر چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جن پولیس اہلکاروں کی طبیعت ویکسین لگنے کے بعد سے خراب ہوئی ہے، ان سے کسی کو ملنے یا بات کرنے کی اجازت نہیں جا رہی۔ یہاں تک کہ ان کے اہلخانہ کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہیں گئی ہے۔ ان اہلکاروں کی عیادت کیلئے پولیس کے اعلی افسران یا سندھ حکومت کا کوئی ذمے دار اسپتال بھی نہیں پہنچا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب محکمہ صحت کی نا اہلی اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں محکمہ صحت کے افسران اور پولیس ٹریننگ سینٹر خیرپورکی انتظامیہ مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔ جبکہ محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتالوں اور دیگر سرکاری ویکسین سینٹرز پر جو ویکسین لگائی جا رہی ہے، اس کی ایکسپائری ڈیٹ چیک کرنے کی کسی بھی عام شخص کو اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ بس بوتل سے ویکسین کی ڈوز بھرکر سامنے بیٹھے شخص کے بازو میں لگا کر اسے چلتا کر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ تر اندرون سندھ میں جاری ہے۔ خیرپور پولیس ٹریننگ سینٹر میں جو زائد المعیاد ویکسین زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو لگائی گئی، اس کا نام ویکس زیوریا(Vaxzevria) ہے جو آسٹرازنیکا ویکسین کا نیا نام ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کی کھیپ اگست میں پاکستان لائی گئی تھی جسے دسمبر سے قبل استعمال کیا جانا تھا۔ مگر یہ ویکسین زیادہ تر لوگوں نے لگوانے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے یہ ویکسین محکمہ صحت کے اسٹوروں میں بنا کسی خصوصی انتظام کے موجود تھی۔ اس رپورٹ کی تیاری کے حوالے سے موقف لینے کیلئے ایڈیشنل آئی جی پولیس ٹریننگ سینٹر سندھ ڈاکٹر کامران فضل سے بات کرنے کی کوشش کی گئی، مگران سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔