حج عشق و محبت کا سفر ہے۔ پرانے زمانے میں ذرائع آمدو رفت نہ ہونے کی وجہ سے عشاقِ حرمین یہ سفر پیدل طے کیا کرتے ہیں۔ اب تو خود سعودی باشندے، بلکہ خود مکہ مکرمہ کے شہری بھی آرام دہ گاڑیوں میں مشاعر مقدسہ جاتے ہیں۔ لیکن اس ترقی یافتہ دور میں بھی دور دراز کے ممالک سے عاشقانِ کعبہ عشق ومحبت کا سفر پیدل طے کرکے حجاز مقدس پہنچتے ہیں۔
برطانوی شہری آدم محمد بھی ایسے ہی عاشقوں میں سے ہیں۔ وہ 6 ماہ قبل لندن سے پیدل سوئے حرم روانہ ہوئے تھے۔ اب وہ ترکی پہنچ چکے ہیں۔ ان کا یہ سفر مزید 6 ماہ جاری رہے گا اور وہ ذی الحجہ تک مکہ مکرمہ پہنچ جائیں گے۔ آدم محمد جب گھر سے روانہ ہوئے تھے تو کافی موٹے تھے، لیکن ترکی تک پہنچ کر وہ کافی اسمارٹ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز وہ استنبول پہنچ گئے۔
عراقی نژاد آدم کی عمر 52 برس ہے اور وہ الیکٹریکل انجینئر ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے پچھلے برس یکم اگست کو مکہ کے لیے اپنا سفر شروع کیا تاکہ وہ اگلے سال جولائی تک سعودی عرب پہنچ جائیں۔ اس سفر میں وہ نیدر لینڈز، جرمنی، چیک رپبلک، بلغاریہ سے ہوتے ہوئے ترکی پہنچے۔ آگے شام اور پھر اردن پہنچیں گے۔ یہ پیدل سفر 6500 کلومیٹر کا ہے اور وہ اوسطاً روزانہ 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔
آدم محمد کا کہنا تھا کہ ایک دن جب میں نیند سے جاگا تو حج کے لیے مکہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس کا مقصد راستے میں عبادت کرنا، خدا تعالیٰ سے معافی مانگنے اور ساری دنیا کے لیے اس کی رحمت کا طلب گار ہونا تھا۔ کسی خاص نسل، شناخت اور ایمان رکھنے والوں کے لیے نہیں، بلکہ سب کے لیے۔ آدم محمد کے پاس ایک ہتھ ریڑھی ہے، جس کا وزن تقریباً 250 کلوگرام ہے۔ اس ریڑھی پر انہوں نے لاؤڈ اسپیکر رکھے ہیں، جن پر وہ قرآن کریم کی تلاوت چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سفید رنگ کا جھنڈا ہے۔ جسے لہرا کر وہ گویا امن کا پیغام عام کرتے ہوئے محو سفر ہیں۔
ان کہنا ہے کہ وہ محبت، امن اور برابری کا پیغام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ راستے میں بہت سارے لوگ ملتے ہیں۔ وہ مجھے کھانا اور پیسے دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سب کچھ چھوڑ کر میرے ساتھ رہتے اور کچھ میرے ساتھ ریڑھی کو دھکا لگاتے ہیں۔ آدم محمد کے سفر کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے کے لیے یکم اگست کو ’’گو فنڈ می‘‘ پر پیچ بنایا گیا ہے۔ ان کی ریڑھی کا سائز ایک تابوت کے برابر ہے، جسے انہوں نے ایک مقامی ویلڈر سے بنوایا تھا اور بجلی کا انتظام بھی کیا تھا، تاکہ وہ اس میں کھانا پکانے کے ساتھ نیند بھی پوری کر سکیں۔
ریڑھی پر ان کے مشن کا نام ’’امن کا سفر‘‘ لکھا ہے اور اس کے پشت پر ’’آل لائیوز میٹر‘‘ تحریر کیا گیا ہے۔ کورونا کی وبا شروع ہونے کے بعد دو بچوں کے باپ آدم محمد نے بہت ساری چیزوں پر سوالات اٹھانے شروع کیے۔ گہرائی سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور انسانی رویئے پرغورکرنے کا آغاز کیا۔
ان کہنا ہے کہ وہ راستے میں لوگوں کو یاد کروانا چاہتے ہیں کہ زندگی بہت مختصر ہے اور کوئی بڑا کام کرنا چاہیے۔ ’’تمام انسانوں کو پیغام ہے کہ نفرت کو ترک کریں، لوگوں کو پرکھنا چھوڑ دیں، ہم انسان ہیں اور ہم بھائی ہیں۔ مزید یہ کہ یورپ میں تین سے چار کروڑ مسلمان ہیں، جو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہم یہاں پناہ گزینوں کے طور پر امن کی تلاش میں آئے۔ یورپ کے لوگوں نے ہمیں سب کچھ دیا۔ ہمیں ان کی عزت کرنی چاہیے۔‘
‘ وہ روزانہ سوشل میڈیا پر اپنے سفر کی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں اور ٹک ٹاک پر ان کے پانچ لاکھ فالورز ہیں۔ آدم محمد کو عربی اور فارسی سمیت چار زبانیں آتی ہیں اور وہ عراقی فوج میں ملازمت اور جنگی قیدی بننے کے بعد 1990ء میں برطانیہ آئے۔ آدم جب ترکی پہنچے تو ان کا استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر الجزیرہ نے ان کا انٹرویو بھی کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے پیدل سفر حج کا ارادہ کیا تو سب نے کہا کہ یہ ایں خیال است و محال و جنوں۔ اس لیے مجھے ایسا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ لیکن میرے دل میں دیدارِ حرم کا شوق گویا آتش فشاں بن کر پھٹ رہا تھا۔ میں نے سفر کی تیاری شروع کر دی اور اشیائے ضروریہ کیلئے یہ ہتھ گاڑی ڈایزائن کی، جس میں شمسی توانائی سے بجلی کا بھی انتظام ہے۔ ہر قسم کے موسم میں، میں اسی میں سوتا ہوں اور چڑھائی میں بھی اسے دھکا کر سفر طے کرتا ہوں۔ جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو میرے پاس زیادہ پیسے بھی نہیں تھے۔ میری اس مہم جوئی کو دیکھ کر راستے میں لوگوں نے دل کھول کر تعاون کیا۔ مجھے راستے میں کوئی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ البتہ پولیس والے جگہ جگہ روک تفتیش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا یہ سفر خالص رب کی رضا کیلیے ہے۔ میرا مقصد کوئی ریکارڈ قائم کرنا ہرگز نہیں ہے۔ اگرچہ برطانیہ سے پیدل حج کا یہ ریکارڈ ضرور ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حق تعالیٰ نے توفیق دی تو میں حجاز مقدس پہنچ کر پہلے مدینہ منورہ جائوں گا۔ پھر وہاں سے پیدل ہی مکہ کا رخ کروں گا۔ حج کے بعد واپسی میں یہ ریڑھی اپنے ساتھ برطانیہ لائوں گا، کیونکہ یہ میری زندگی کی ایک اہم یادگار ہے۔ اسے وہاں چھوڑ نہیں سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں پچھلے برس برطانیہ سے نکلا تھا تو مقامی سعودی سفارتخانے سے حج کا اجازت نامہ بھی حاصل نہ کرسکا، گزشتہ برس حج کی اجازت بھی نہیں تھی۔ تاہم امید ہے کہ سعودی حکام مجھے منع نہیں کریں گے۔ سعودیہ میں موجود میرے بعض دوست اس حوالے سے حکام سے بات بھی کر رہے ہیں۔ آدم کی بیٹی دالیا کا کہنا ہے کہ میرے والد بڑے مہم جو آدمی ہیں، وہ جس چیز کا فیصلہ کرتے ہیں، اسے عملی جامہ پہناتے ہیں۔ ہمارا ایک گھر نما ٹرک بھی ہے، جس میں سارا سامان موجود ہے، اس میں والد صاحب ہمیں لے کر دور دراز کے ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ وہ جانے سے قبل ہم اہل خانہ کیلیے پورے سال کے اخراجات کا انتظام کرکے گئے ہیں۔ وہ محبت کرنے والی شخصیت ہیں اور ہرایک کی عزت کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے سعادت کی بات ہے کہ ہمارے والد پیدل حج کرنے نکلے ہیں۔
انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ موجودہ حالات میں بھی بہت سی مثبت باتیں موجود ہیں اور انسانیت زندہ ہے۔ دالیا کے بقول والد صاحب روزانہ ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ آدم کا بیٹا غسان یحییٰ کا کہنا ہے کہ ہمارا دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں، کس ملک میں والد صاحب کے ساتھ کیا حالات پیش آئیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ زمین کو ان کیلئے لپیٹ رہے ہیں، اس لیے ان کا سفر بڑی سرعت سے طے ہو رہا ہے۔ امید ہے بقیہ سفر بھی بخیر وخوبی انجام پذیرہوگا۔