امت رپورٹ:
ایک ارب درخت (بلین ٹری) لگانے کے دعویدار عمران خان کے جلسے نے لاہور کا گریٹراقبال پارک اجاڑ دیا۔ جمعرات کو ہونے والا پی ٹی آئی کا پاورشو اپنے پیچھے کچرے کے ڈھیراور تباہ شدہ پودے چھوڑگیا تھا۔
اس جلسے کے تیسرے روز نمائندہ ’’امت‘‘ نے مینار پاکستان کے اس تاریخی پارک کا تفصیلی سروے کیا تو کپتان کے کارکنوں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کے بیشتر آثار باقی تھے، جن میں تباہ حال جنگلے، ٹوٹے گملے، اجڑی کیاریاں، اکھڑے درخت اورکچلے گئے پودے شامل تھے، جنہیں کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا گیا۔
پارک کی نگہبانی پر مامورایک ملازم نے بتایا کہ جلسے کے دوسرے اور تیسرے روز اگرچہ انتظامیہ نے بڑی حد تک کچرے کے ڈھیروں کی صفائی کردی ہے، بیشتر اکھڑے درختوں اور کچلے گئے پودوں کو اٹھا لیا ہے۔ مکمل صفائی میں ایک دن اور لگے گا۔ تاہم جلسے کے شرکا نے پارک کے پودوں، درختوں اور کیاریوں کو جو نقصان پہنچایا ہے، انہیں دوبارہ بحال کرنے میں کافی وقت درکار ہے۔ کیونکہ کئی ایسے درختوں کو اکھاڑ دیا گیا جو کئی برس بعد پودوں سے درخت بنے تھے۔
واضح رہے کہ پارک کا انتظام سنبھالنے والی پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) نے جلسے کے اگلے روز جمعہ کو پارک کی صفائی کی تو معلوم ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ستّر فیصد پودوں، جھاڑیوں اور درختوں کو نقصان پہنچایا۔
نمائندہ ’’امت‘‘ جب اتوار کی سہ پہر مینار پاکستان کے اقبال گریٹر پارک پہنچا تو پی ٹی آئی جلسے کی تباہ کاریوں کے بیشتر آثار تاحال باقی تھے۔ انتظامیہ ٹوٹے گملے اور اکھڑے درختوں کو اٹھانے میں مصروف تھی تاکہ ایک دودن میں پارک کی مکمل صفائی کرکے سیاحوں کے لئے اسے دوبارہ دیدہ زیب بنا دیا جائے۔ تاہم ایک باغبان کے بقول ٹوٹے گملوں کی جگہ نئے آجائیں گے۔ ٹوٹے جنگلے اور لوہے کی باڑوں کی مرمت ہوجائے گی، کچرے کے ڈھیر بڑی حد تک صاف کئے جاچکے ہیں۔ باقی کچرا بھی آج پیر تک اٹھالیا جائے گا۔ تاہم جن پودوں کو درخت بننے میں کئی برس لگے، انہیں فوری طور پر کیسے اگایا جاسکتا ہے؟
دوران سروے نمائندہ ’’امت‘‘ کو مرکزی گیٹ سے مینارِ تک کی درمیانی پختہ راہداری کی اینٹیں ٹوٹی ملیں، پودے اجڑے ہوئے، کئی مقامات پر اکھڑے درخت پڑے تھے۔ ایک ایسے ہی درخت سے کچھ فاصلے پر ایک تھکا ہارا مسافر آرام کر رہا تھا۔ پارک کا وہ مقام جہاں کبھی جھیل ہوا کرتی تھی اور اب پختہ راہداری ہے ، اس سے ملحقہ گھاس کی کیاریوں کو بھی درمیان سے کاٹ دیا گیا تھا۔ تاکہ جلسے کے لئے بجلی اور سائونڈ سسٹم کے انتظام کے لئے بڑے تاروں کو گزارا جاسکے۔ ان تاروں کے لئے گھاس اکھاڑ کر چھوٹی سرنگ نما کھدائی کی گئی ۔ نمائندہ ’’امت‘‘ کچھ آگے بڑھا تو مینار کے آہنی حصار کے دروازوں کے تالے ٹوٹے ہوئے ملے اور کچھ آہنی گیٹ بھی بری طرح متاثر تھے۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی قیادت کی تصاویر والے پوسٹر کچرے اور اکھڑے درختوں اور جھاڑیوں میں جا بجا پڑے ملے۔ اس موقع پر مینارِ پاکستان (گریٹر اقبال پارک) کی انتظامیہ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی کے افسر اور بلڈنگ اتھارٹی کے افسر تو دستیاب نہیں تھے۔ البتہ ماتحت عملے کے کچھ اہلکار پانی کے پائپ لئے گھاس اور پودوں کو نئی زندگی دینے کے لئے کوشاں نظر آئے۔
انتظامیہ کے یہ اہلکار اگرچہ کھل کر پارک کی تباہ حالی پر بات کرنے سے گریزاں دکھائی دیئے۔ تاہم پارک کی سجاوٹ کے لئے محنت کرنے والے یہ اہلکار اس بربادی پر کرب کا شکار ضرور دکھائی دیئے۔ ان اہلکاروں نے پی ٹی آئی کے قافلوں کے ٹرکوں کو گزارنے کے لئے آہنی گیٹ اور ان کے تالے توڑے جانے کی نشاندہی کی اور کہا کہ سیکورٹی کیمروں نے پورے پارک کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اگر تحقیقات کی جاتی ہیں تو پارک اجاڑنے والوں کی نشاندہی کرنا مشکل نہیں ہوگی۔
اس موقع پر نمائندہ ’’امت‘‘ کی گریٹر اقبال پارک کی سیر کے لیے آنے والے چند سیاحوں سے بھی بات چیت ہوئی، جو پودوں کی بربادی پر افسردہ اور غصے میں نظر آئے۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے بچوں ماہ نور ، منان اور عائشہ کا کہنا تھا ’’ہمارے گھر میں پہلے سے بھی پودے موجود تھے اور جب عمران خان نے پودے لگانے کی بات کی تھی تو ہم نے مزید پودے لگائے۔ لیکن یہاں اسی پارٹی کے جلسے میں پودوں کا یہ حشر دیکھ کر بہت دکھ ہورہا ہے، ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہئے۔‘‘
بہاولپور کے مدرسے میں قرآن پاک حفظ کرنے والے محمد احمد نے بتایا ’’ہم پہلی بار یہاں آئے ہیں ۔ یہ دکھ والی بات ہے کہ جلسے کے شرکا نے قرآن و سنت کے احکامات کے برعکس پودوں کو برباد کیا۔‘‘ محمد احمد کے دوست محمد سفیان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان مسلسل درخت لگانے کی ترغیب دیتے ہیں، لیکن انہی کی پارٹی کے لوگوں نے اقبال گریٹر پارک میں پودوں کا ’’قتل عام‘‘ کیا۔ ان لوگوں کو سزا ملنی چاہیئے۔
اقبال گریٹر پارک کی سیر کے لئے چند ایسے نوجوان بھی آئے ہوئے تھے، جن کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ابراہیم ، امیر اللہ اور ان کے دوستوں کا کہنا تھا ’’ہم پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ جلسے کے شرکا کو پارک کے پودے خراب نہیں کرنے چاہیئے تھے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ عمران خان آئندہ اپنے کارکنوں کو ایسا کرنے سے روکیں گے۔ اول تو ایسے تفریح کے مقامات پر جلسوں کے اجازت ہی نہیں دینی چاہیئے۔‘‘
کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ساجد خان کا کہنا تھا مینارِ پاکستان جیسے تاریخی مقامات پر جلسے نہیں ہونا چاہئیں، دیگر مقامات پر جلسے ہونا چاہئیں اورجو نقصان پہنچا اس کا ازالہ جلسے کی انتظامیہ کے ذمہ ہونا چاہیئے۔ مینارِ پاکستان پر ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے محمد ہارون بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی پارک کے پودوں کو نقصان پہنچانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بلڈنگ ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹرناصر بٹ کا کہنا تھا کہ جو نقصان ہوا ہے اس کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ جسے آج پیر تک حتمی شکل دے کراعلیٰ حکام کو بھجوادیا جائے گا۔ جب ان سے دریافت کیا گیا کہ ایک مشروب ساز ادارے کو بھی یہاںتین روز تک افطار کیمپ لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔ کیا ایسے موقع پر پودوں کی حفاظت کی میں ضمانت لی جاتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا ’’جب کوئی اجازت نامہ لیتا ہے تو اس میں تمام شرائط موجود ہوتی ہیں۔‘‘
اقبال گریٹر پارک کی نگراں پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی نواز شاہ سے جب نمائندہ ’’امت‘‘ نے فون پر رابطہ کیا تو حیران کن طور پر ان کا کہنا تھا کہ پڑھے لکھے لوگوں کا جلسہ تھا، کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ ٹہنیاں اور تنے ٹوٹتے رہتے ہیں، پھر سے آ جائیں گے ۔ علی نوازشاہ نے درخت تنوں سے ٹوٹنے اور جڑوں سے اکھڑنے کی بھی نفی کی۔ جبکہ ان کی تصاویرنمائندہ ’’امت‘‘ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہیں۔
پی ٹی آئی کے جلسے کے اگلے روز ایک موقر انگریزی اخبار نے بھی اپنی رپورٹ میں گریٹر اقبال پارک کی تباہ حالی کا ذکر کیا تھا۔ دلچسپ امر ہے کہ اسی پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کی ترجماں نادیہ نے بتایا تھا کہ اتھارٹی نقصان کے بارے میں رپورٹ تیار کر رہی ہے، جسے ضلعی انتظامیہ کو بھیجا جائے گا۔ نادیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جلسے کے بعد ہونے والے نقصان کے سبب نئے درخت لگانے پر اتھارٹی کو لاکھوں روپے خرچ کرنے ہوں گے اور اس کی دیکھ بھال کے لئے باغبان تعینات کرنے پڑیں گے۔ جبکہ اسی اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی نواز شاہ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس بربادی کو معمولی نقصان قرار دیا۔
یاد رہے کہ مینار پاکستان وہ تاریخی مقام ہے، جہاں انیس سو چالیس میں قیام پاکستان کی قرارداد منظورکی گئی تھی۔ اس وقت اس کا نام منٹو پارک تھا۔ انیس سو اڑسٹھ میں یادگارِ پاکستان کی تعمیر مکمل ہوئی تو مینارکی مناسبت اسے منیارِ پاکستان کہا جانے لگا۔ سابق دورِ حکومت میں یہاں میوزیم بنا کر اسے گریٹر اقبال پارک کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ اس تاریخی مقام کی سیر کرنے کے لئے ہر برس ملک اور بیرون ملک سے لاکھوں لوگ آتے ہیں۔