ارشد شریف کے مقدمات کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد: صحافی ارشد شریف کے خلاف درج مقدمات کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ مقدمات اس عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہیں ، عدالت ان مقدمات کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی۔

نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی ارشد شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی ، دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کوتو3 سال سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔ وکیل  فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ  سمیع ابراہیم اورعمران ریاض کیخلاف 10ایف آئی آرکاٹی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے پرچے تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، ادارے قانون کے مطابق اپنا کردارادا کریں گے ،چیزیں خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی، یہ عدالت صرف حفاظتی ضمانت منظورکرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم فرض کرلیں کہ یہ مقدمات وزیر خارجہ کے حکم پر ہورہے ہیں؟۔ صحافی ارشد شریف نے کہا کہ اظہاررائے کی آزادی کے حقوق کے تحفظ اورانصاف کے لیے آیا ہوں۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ کچھ دن مطیع اللہ جان نے بھی سیرکی تھی۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ مجھے بھی اٹھایا جا سکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اٹھانا اتنا آسان نہیں، آپ کو اپنا وزن کم کرنا پڑے گا،آرڈر جاری کر دیتے ہیں کہ جب تک فیصل وزن کم نہ کرے تو اسے کوئی نہ اٹھائے۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ارشد شریف کے خلاف سندھ ہی نہیں، بلوچستان میں بھی پرچے درج ہوگئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جرنلسٹ باڈی کا کوئی نمائندہ عدالت موجود ہے ؟،کورٹ رپورٹرز کی تنظیم کے صدریہاں موجود ہیں ان سے پوچھ لیتے ہیں،عدالت نے ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیرکو روسٹرم پر بلا لیا ۔ ثاقب بشیر نے کہا کہ ارشد شریف کو سنجیدہ نوعیت کی  دھمکیاں مل رہی ہیں۔ارشد شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ارشد شریف پرالزام ہے کہ انہوں نے مطیع اللہ جان کے پروگرام میں کوئی بات کی  جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس بیچارے کو پھر کیوں بیچ میں لاتے ہیں ،یہ پہلے بھی سیرکرکے آئے ہیں۔

وکیل درخواست گزارنے عدالت کوبتایا کہ اس وقت تک آٹھ مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نےاستفسار کیا کہ ملک بھرمیں کتنے ڈسٹرکٹس ہیں؟، ہم 106 ہفتے کی حفاظتی ضمانت دے دیں کہ ہر ضلع میں جائیں،اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں کہ کسی اور ضلع میں درج مقدمہ پرکوئی فیصلہ کرے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ  ایسا کوئی قانون نہیں کہ مقدمہ یہاں ٹرانسفرکیا جا سکے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ صحافی  جذباتی نہیں ہو سکتا، اسے ذمے داری اوراحتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے،دائرہ اختیار کو مد نظر رکھ کر تجویز کریں کہ عدالت کیا کرسکتی ہے۔