امت رپورٹ:
عمران خان اپنے معصوم کارکنان سے ہاتھ کر گئے۔ رات دو بجے کے قریب پی ٹی آئی چیئرمین واپسی کا فیصلہ کرچکے تھے۔ لیکن ڈی چوک میں ساری رات آنسو گیس کے گولے کھانے والے کارکنان کو آخر تک اس سے بے خبر رکھا گیا۔ اور انہیں مسلسل یہ پیغام پہنچایا جاتا رہا کہ کپتان جلد پہنچنے والے ہیں، وہ ڈٹے رہیں۔
دوسری جانب پیغام رسانوں نے عمران خان کو باور کرادیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں جس طرح کا گھیرائو جلائو اوربدامنی پھیلائی جا چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں کھیل ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ ڈی چوک پہنچنے کا خیال دماغ سے نکال کر واپسی کا بندوبست کیا جائے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بظاہر ڈی چوک کی طرف بڑھنے والے کپتان کے قافلے کی رفتار دانستہ سست رکھی گئی تھی۔
واضح رہے کہ لانگ مارچ سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جہاں ایک طرف گرفتار کارکنوں کی رہائی، راستے کھولنے اور عمران خان سمیت مزید گرفتاریاں نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہیں یہ بھی کہا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین ایچ نائن کے گرائونڈ میں جلسہ کریں اور ڈی چوک نہ جائیں۔ تاہم عمران خان نے اس واضح حکمنامے کے باوجود جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں موجود اپنے کارکنوں اور سپورٹرز کو ہر صورت ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ ان کا انتظار کریں۔
یوں ڈی چوک پہنچنے والے پی ٹی آئی کارکنان کے لئے ایک نہ ختم ہونے والے انتظار کا سلسلہ شروع ہوا۔ ساری رات ڈی چوک اور اس کے اطراف میں پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے مابین آنکھ مچولی جاری رہی۔ اس دوران بے پناہ شیلنگ کی گئی۔ پی ٹی آئی کارکنوں کو پولیس بھاری شیلنگ کرکے کبھی پیچھے دھکیل دیتی اور کبھی یہ کارکنان، جن کی تعداد بمشکل دو ڈھائی سو کے لگ بھگ ہوگی، واپس ڈی چوک پہنچ جاتے۔ آنسو گیس کے مسلسل گولوں کی بارش سے ان کارکنوں کے حوصلے ٹوٹنے بھی لگتے تھے تو پی ٹی آئی کا کوئی نہ کوئی رہنما پھر آس دلادیتا تھا کہ تمہارا قائد (عمران خان) بس ڈی چوک پہنچنے والاہے۔ حتیٰ کہ واپسی کا اعلان کرنے سے محض بیس پچیس منٹ قبل جب ایک ٹی وی چینل نے عمران خان کے ساتھ کنٹینر پر موجود شاہ محمود قریشی کو لائن پر لیا تو تب بھی ان کا یہی کہنا تھا کہ بس اب پی ٹی آئی چیئرمین کا قافلہ ڈی چوک کے نزدیک ہے اور کارکنوں کا انتظار ختم ہونے والا ہے۔ اس سے قبل ایک ٹویٹ کے ذریعے فواد چوہدری یہ بڑھک مار چکے تھے کہ ’’کارکنان ڈی چوک پہنچیں۔ مقابلہ ابھی شروع ہوا ہے۔ عمران خان بھی ڈی چوک پہنچ رہے ہیں‘‘۔
اس سارے عرصے کے دوران اندرون خانہ جو کچھ ہوتا رہا۔ اس کی تفصیلات بڑی دلچسپ ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے اور اس سے جڑے چند دیگر ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کا قافلہ جب بدھ کی رات گیارہ بجے اسلام آباد میں داخل ہوا تو مختلف حلقوں اور حکومت کے ساتھ پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے والے ان کے پارٹی رہنمائوں نے عمران خان کو زمینی حقائق سے آگاہ کردیا تھا کہ قافلہ لے کر ڈی چوک پہنچنا ان کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ہر پارٹی میں معتدل اور سخت گیر عناصر پائے جاتے ہیں۔ جنہیں انگریزی اصطلاح میں Doves اور Hawks کہا جاتا ہے۔ تحریک انصاف میں پرویز خٹک، اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود سمیت چند دیگر معتدل رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یعنی وہ Doves کی کٹیگری میں آتے ہیں۔ ذرائع کے بقول ان رہنمائوں کے میڈیا اور عوام میں دیئے جانے والے سخت بیانات ان کے اصل خیالات کی ترجمانی نہیں کرتے۔ کیونکہ بعض اوقات پارٹی قائد کو خوش کرنے کا مرحلہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ تاہم بنیادی طور پر متذکرہ رہنما معتدل سیاسی سوچ رکھنے والے ہیں اور ان کے زیادہ تر مشورے چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر یہ رپورٹ شائع کی جاچکی ہے کہ لانگ مارچ کو لے کر مارنے مرنے سے متعلق انتہا پسند پالیسی سے پرویز خٹک نے عمران خان کے سامنے پارٹی اجلاس میں اختلاف کیا تھا۔ اس کی تائید اسد عمر اور شفقت محمود نے بھی کی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ لانگ مارچ شروع کئے جانے کے دوران اور اس سے پہلے سسٹم کے اہم اسٹیک ہولڈرز کو پیغام پہنچانے اور ان کا پیغام پارٹی چیئرمین کے پاس لانے کا سارا عمل بھی پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی نے سنبھال رکھا تھا۔ جب سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود عمران خان نے ڈی چوک جانے اور کارکنوں کو وہاں پہنچنے کا اعلان کیا تو پارٹی کے یہی معتدل رہنما پریشان تھے۔ بظاہر پارٹی چیئرمین کے ہمراہ کنٹینر پر سوار وہ بڑے پرجوش تھے۔ تاہم پیغام رسانوں نے عمران خان کو باور کرادیا تھا کہ اگر وہ اپنے اعلان کے مطابق ڈی چوک چلے گئے تو یہ سپریم کورٹ کے احکامات کی عملی خلاف ورزی ہوگی اور یہ عمل سو فیصد توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔ جس کا دفاع کرنا مشکل ہوگا اور عدلیہ پھر کوئی نئی فیس سیونگ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ ان کا قافلہ ڈی چوک اور ریڈ زون تک پہنچ گیا تو پھرعدالتی احکامات سے قطع نظر بھرپورکریک ڈائون ہوگا۔ یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو یہ بھی باور کرادیا گیا تھاکہ ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان واقع میدان میں جلسہ کرکے واپس جانے سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم ایک بہترین فیس سیونگ ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے احترام میں پی ٹی آئی ایچ نائن میدان میں جلسہ کرکے واپس آگئی۔ بصورت دیگر ہر صورت ڈی چوک میں اس وقت تک بیٹھنے کا پروگرام تھا۔ جب تک حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کردیتی۔ تاہم پارٹی کے معتدل رہنمائوں کے تمام مشوروں کے برعکس عمران خان کی ضد تھی کہ ہر صورت ڈی چوک جانا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس دوران پس پردہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور مسلسل پیغام دیا جاتا رہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے قافلے کے ڈی چوک پہنچنے پر کسی قسم کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور قانون پوری طرح حرکت میں آئے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے قافلے کی رفتار اسی لئے دانستہ طور پر سست کی گئی تھی کہ اس دوران بات چیت کا سلسلہ جاری تھا اور کپتان کی کوشش تھی کہ ڈی چوک پہنچنے پر بھی ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کئے جانے کی یقین دہانی مل جائے۔ لیکن یہ ہو نہ سکا۔
عمران خان کا قافلہ بدھ کی رات گیارہ بجے کے قریب بذریعہ ٹول پلازہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا تھا۔ یہاں سے ڈی چوک کی ڈرائیو بذریعہ سری نگر ہائی وے چالیس منٹ کی ہے۔ جبکہ پیدل مسافت تقریباً پانچ گھنٹے چوّن منٹ بنتی ہے۔ یہ فاصلہ اکتیس کلومیٹر سے کچھ زائد ہے۔ تاہم رات گیارہ بجے اسلام آباد میں داخل ہونے والا عمران خان کا قافلہ نو گھنٹے بعد صبح آٹھ بجے تک بھی، جب واپسی کا اعلان کیا گیا، ڈی چوک نہ پہنچ سکا۔ یہ درست ہے کہ بڑی تعداد میں گاڑیوں اور کارکنوں کے سبب قافلہ انتہائی کم رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود قافلے کو صبح ساڑھے پانچ سے چھ بجے تک ڈی چوک پہنچ جانا چاہئے تھا۔
ذرائع کے مطابق پس پردہ بات چیت کے دوران دانستہ طور پر قافلے کی رفتار مزید سست کردی گئی تھی۔ تاکہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچنے کی صورت میں حتمی فیصلہ کیا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق جب رات تقریباً دو بجے کے قریب یہ واضح ہوگیا کہ قافلے کے ڈی چوک پہنچنے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں کارکنان ریڈ زون میں داخل ہوسکتے ہیں۔ جہاں دنیا بھر کے اہم سفیروں کی رہائش گاہ سپریم کورٹ، وزیراعظم ہائوس، پارلیمنٹ لاجز، وزارت داخلہ اور دیگر اہم عمارتیں موجود ہیں۔ لہٰذا جس طرح بلیو ایریا اور دیگر مقامات پر جلائو گھیرائو کیا گیا۔ اگر یہی صورتحال ریڈ زون میں کی گئی تو ساری دنیا میں بدنامی ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے آرٹیکل دو سو پینتالیس کے تحت ریڈ زون میں فوج بلائے جانے سے متعلق نوٹیفکیشن کا اجرا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ یہی موقع تھا جب معتدل رہنمائوں کے مشورے کو آخر کار تسلیم کرتے ہوئے عمران خان نے واپسی کا حتمی فیصلہ کرلیا تھا۔ تاہم ڈی چوک اور اس سے پہلے کے دو مقامات پر قافلے کے منتظر کارکنوں کو تب بھی بے خبر رکھا گیا۔ خاص طور پر ڈی چوک پر موجود کارکنان اسی آس میں بدترین شیلنگ برداشت کرتے رہے۔ یہ نوٹیفکیشن رات تقریباً پونے دو بجے کے قریب جاری کیا گیا اور اس کے فوری بعد ریڈ زون میں ٹرپل ون بریگیڈ کے جوانوں نے اہم عمارتوں کی سیکورٹی سنبھال لی تھی۔ جبکہ ریڈ زون کی سیکورٹی کے لحاظ سے فرنٹ پر پولیس اور اس کے پیچھے رینجرز تھے۔
چھبیس مئی کا سورج طلوع ہوا تو ڈی چوک پر رات بھر کی ہونے والی شیلنگ میں وقفہ آگیا تھا۔ لہٰذا عمران خان کے قافلے کا انتظار کرنے والے کارکنان دوبارہ ڈی چوک پر جمع ہوچکے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ دوسری جانب یہ وقفہ اس لئے آیا تھا کہ پولیس کی تازہ دم نفری طلب کی گئی تھی اور آنسو گیس کے گولوں کا مزید اسٹاک بھی منگوالیا گیا تھا۔ یعنی عمران خان کے قافلے کے ڈی چوک پہنچنے کی صورت میں اس سے نمٹنے کی تیاری مکمل تھی۔
بدھ کی صبح آٹھ بجے کے قریب جب عمران خان اپنے رینگتے قافلے کو لے کر جناح ایونیو پہنچے تو اس وقت بھی ڈی چوک تقریباً پونے چار کلومیٹر دور تھا۔ اس مقام پر عمران خان نے مختصر خطاب میں حکومت کو الیکشن کے اعلان کے لئے چھ روز کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے بنی گالہ کا راستہ لیا۔ ذرائع کے مطابق یہ ڈیڈ لائن محض فیس سیونگ ہے۔
واپسی کی دیگر وجوہات کے بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ ایک تو بیس لاکھ لوگ لانے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان مطلوبہ تعداد میں کارکنوں کو باہر نہیں نکال سکے۔ پھر یہ کہ جتنے بھی لوگ ان کے ساتھ تھے۔ ان کے لئے ڈی چوک کے مقام پر قیام کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ کڑی دھوپ میں کارکنان کے لئے نہ خیمے نصب تھے، نہ کھانے پینے اور بیت الخلا کا کوئی بندوبست کیا گیا تھا۔ دوسری جانب شیلنگ کی برسات تھی۔