ایک سال کے دوران سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں، جلسوں اور لانگ مارچ کے ’’مقابلوں‘‘ سے ہونے والی توڑ پھوڑ سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مجموعی طور پر مضبوط ہوئی ہیں۔ جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کو تنظیمی طور پر شدید دھچکا لگا ہے اور اس کی پنجاب کی پوری قیادت ہی تبدیل کردی گئی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے ناراض اراکین میں سے پچانوے فیصد واپس لوٹ آئے ہیں۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں سے صرف مسلم لیگ ن کے کچھ اراکین اسمبلی نے اپنی جماعت سے سیاسی اختلاف رائے کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی عمران خان، عثمان بزدار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریکیں آئیں تو پی ٹی آئی میں سیاسی اختلاف کھل کر سامنے آگیا۔ عدمِ اعتماد کی تحریکوں میں پی ٹی آئی میں پہلے ترین اور علیم خان گروپ سامنے آئے۔ جس سے عمران خان کی مرکزی اور صوبائی حکومت ختم ہوگئی اور پھر جب عمران خان نے جلسوں کے بعد اچانک لانگ مارچ کی تاریخ دی تو پارٹی کے اندر شدید اختلاف ِ رائے سامنے آیا اور اس اظہار مقامی تنظیموں اور عہدیداروں نے لانگ مارچ کی کال پر عدم دلچسپی سے کیا۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق عمران خان نے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان اچانک اور کسی کی مشاورت اور منصوبہ بندی کے بغیر کیا تھا۔ جس کی وجہ سے مقامی تنظیموں کو تیاری اور منصوبہ بندی کا وقت ہی نہیں ملا اور جب لانگ مارچ شروع ہوا تو پارٹی کے قائدین کی سخت بیانی نے بھی کارکنوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کردیا۔ جبکہ مقامی قیادت اور عہدیداران چاہنے نہ چاہنے کے باوجود کارکنوں کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر نہ لاسکے جس پر پارٹی کے سربراہ عمران خان نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور پارٹی کی قیادت تبدیل کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے سiنٹرل پنجاب کے صدر سابق وزیر شفقت محمود کو غیر فعال کیا اور پھر پوری قیادت ہی کو تبدیل کردیا اور اپنے پرانے اور معتمد ساتھیوں کو ذمہ داریاں سونپ دیں۔ اس عمل کے دوران جہانگیر ترین گروپ پہلے ہی علیحدہ ہوچکا تھا اور اب عمران خان نے مخدوم شاہ محمود قریشی کا گروپ بھی فارغ کردیا ہے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی طرف سے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر سابق وزیر مخدوم خسرو بختیار (جو لانگ مارچ کے دوران پاکستان میں موجود نہیں تھے )کو تبدیل کرکے ملتان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عون عباس بپی کو جنوبی پنجاب کا صدر مقررکردیا ہے۔ واضح رہے کہ عون عباس بپی نے عام انتخابات کے دوران پارٹی ٹکٹ کے حصول کی کوشش کی تھی تو جہانگیر ترین اور مخدوم شاہ محمود قریشی نے شدید مخالفت کی تھی۔ لیکن پارٹی کے صدر عمران خان نے سیاسی سرگرمیوں میں متحرک ہونے پر انہیں سینیٹر بنوا دیا تھا اور اب مزید فوقیت دیتے ہوئے پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کا صدر بنادیا ہے۔ اسی طرح ابتدائی طور پر وزیراعلیٰ بننے کے سامنے آنے والے نام یاسر ہمایوں کو بھی جنرل سیکریٹری کے عہدے سے فارغ کرکے سابق وزیر حماد اظہر کو سینٹرل پنجاب کا جنرل سیکریٹری بنادیا گیا ہے۔ اسی دوران پی ٹی آئی شمالی پنجاب کا صدر بھی اپنے قابلِ اعتماد سابق وزیر عامر کیانی کو مقرر کردیا گیا ہے۔ جنہیں قبل ازیں مالی بے قاعدگیوں کے اسکینڈلز کی وجہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی میں مزید تبدیلوں کا امکان ختم نہیں ہوا ہے۔
پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق میں عدم اعتماد کی تحریکوں کے دوران پیدا ہونے والا اختلافِ رائے تاحال برقرار ہے۔ تاہم ایسی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ میں دوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں اور مستقبل میں ان کے بڑھنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کی اہم ترین اور بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے اختلافِ رائے رکھنے والے اراکین میں سے پچانوے فیصد کی واپسی ہوچکی ہے۔
مسلم لیگ ن کے اراکین اظہر عباس چانڈیہ، مولوی غیاث الدین، میاں جلیل احمد شرقپوری، حاجی اشرف انصاری اور فیصل خان نیازی کا پارٹی سے اختلاف رائے اپنے حلقوں کے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کے حصول کے لیے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کے باعث شروع ہوا تھا۔ یہ ناراضی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعماد کی تحریک کے دوران بھی ان اراکین سے رابطہ نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں حمزہ شہباز کو چودھری پرویز الٰہی کے صفر کے مقابلے میں ملنے والے ایک سو ستانوے ووٹوں میں اظہرعباس چانڈیہ کا ووٹ بھی شامل تھا۔ ان ناراض اراکین کے بارے میں تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ جب ان اراکین نے عثمان بزدار سے ملاقات کی تھی تو پارٹی کی جانب سے انتہائی شدید ردِ عمل سامنے آنے پر ان اراکین کے پارٹی کے اندر اور مقامی سطح کے مخالفین نے بھی ان کے بارے خوب آگ بھڑکائی تھی۔ لیکن وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد حمزہ شہباز کی جانب سے ان اراکین کے رابطے کرنے اور پرانے ساتھیوں کی مداخلت سے یہ معاملہ رفع ہونا شروع ہوگیا ہے۔ مولوی غیاث الدین بھی پارٹی قیادت سے ملاقات کرچکے ہیں اور اشرف انصاری باقاعدہ واپسی کا اعلان کرچکے ہیں۔ جبکہ میاں جلیل احمد شرقپوری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بھی رابطے میں ہیں اور کسی وقت بھی واپسی کا اعلان ہوسکتا ہے۔ پارٹی میں واپسی کا اعلان کرتے ہوئے اشرف انصاری نے واضح کیا کہ انہوں نے کبھی بھی پارٹی کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔
ق لیگ سے بھی دوریاں بڑھ رہی ہیں- ن لیگ کے ناراض اراکین رام ہونے لگے۔فائل فوٹو