این اے 45 کرم میں امن و امان کے باعث الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔فائل فوٹو
این اے 45 کرم میں امن و امان کے باعث الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔فائل فوٹو

پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی بدترین شکست کا امکان

امت رپورٹ:

پنجاب میں17 جولائی کو شیڈول صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی بدترین شکست کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ بیس مئی کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے پچیس ایم پی ایز کو پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر ڈی سیٹ کردیا تھا۔ ان ارکان نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لئے ووٹ دیا تھا۔ ان میں سے پانچ ارکان خصوصی نشستوں پر منتخب ہوئے تھے۔ لہٰذا ضمنی الیکشن باقی بیس نشستوں پر ہورہے ہیں۔ اور ڈی سیٹ ہونے والے تمام ارکان دوبارہ منتخب ہونے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔

یہ ضمنی الیکشن اس لیے بھی اہمیت اختیار کرگئے ہیں کہ نون لیگ سے وفاداری پر ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی اکثریت دوبارہ منتخب ہوجاتی ہے تو وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی کرسی مضبوط ہوجائے گی۔ تاہم اس کے برعکس پی ٹی آئی کے امیدواروں نے زیادہ نشستیں حاصل کرلیں تو حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ خطرے میں پڑسکتی ہے۔ نون لیگ کو توقع ہے کہ وہ ان بیس صوبائی نشستوں میں سے سولہ حاصل کرلے گی۔ اس کا اظہار وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی کرچکے ہیں۔ جبکہ نون لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان میں موجود قیادت نے نواز شریف کو جو رپورٹ بھیجی ہے، اس میں بھی اسی توقع کا اظہار کیا گیا ہے۔

یہ دیکھنے کے لئے کہ نون لیگ ضمنی الیکشن میں بھاری اکثریت سے اپنی کامیابی کا دعویٰ کس بنیاد پر کر رہی ہے۔ جب کچھ ریسرچ کی گئی تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی انہونی نہ ہوجائے تو زمینی حقائق یہی ہیں کہ نون لیگ بیس میں سے پندرہ تک سیٹیں حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ ڈی سیٹ ہونے والے ارکان میں سے نو ایسے ہیں، جنہوں نے دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ بعد ازاں تحریک انصاف کو جوائن کرلیا تھا۔ اسی طرح سوائے چند ارکان کو چھوڑ کر باقی تمام ڈی سیٹ ایم پی ایز الیکٹ ایبلز ہیں، یعنی کہ متعلقہ انتخابی حلقوں میں ان کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ لہٰذا وہ کسی بھی پارٹی میں ہوں یا پھر آزاد حیثیت میں الیکشن میں لڑیں، عموماً کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو بھی ان زمینی حقائق کا ادراک ہے اور انہیں نظر آرہا ہے کہ ضمنی الیکشن میں سیٹوں کی اکثریت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ لہٰذا انہوں نے قبل از وقت ہی ضمنی الیکشن میں دھاندلی کا واویلا کرنا شروع کردیا ہے۔ اگر ڈی سیٹ ہونے والے چودہ سے پندرہ ارکان اپنی نشستیں دوبارہ حاصل کرلیتے ہیں تو اس صورت میں تقریباً چار خصوصی نشستیں بھی حاصل ہوجائیں گی۔ یوں مجموعی تعداد انیس تک پہنچ سکتی ہے۔

ڈی سیٹ ہونے والے جن نو ارکان نے دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر لڑے تھے، ان میں راجہ صغیر احمد، ملک غلام رسول سانگلہ، سعید اکبر خان نوانی ، محمد اجمل چیمہ ، فیصل حیات جبوانہ، مہر محمد اسلم، محمد سلمان نعیم، محمد طاہر رندھاوا اور محسن عطا خان کھوسہ شامل ہیں۔ ان ارکان کے پروفائل کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں راولپنڈی کے صوبائی حلقے سات سے الیکشن جیتنے والے راجہ صغیر احمد آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے تھے۔ انہوں نے چوالیس ہزار دوسو چھیاسی ووٹ لے کر نون لیگ کے راجہ محمد علی کو شکست دی تھی۔ راجہ محمد علی کو بیالیس ہزار تین سو بیاسی ووٹ پڑے تھے۔ جبکہ پی ٹی آئی کا امیدوار تیسرے نمبر پر تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر راجہ صغیر احمد اور راجہ محمد علی دونوں کے ووٹوں کو یکجا کرلیا جائے تو یہ چھیاسی ہزار سے زائد ووٹ بنتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار غلام مرتضیٰ ستی چالیس ہزار تین سو بتیس ووٹ لے پائے تھے۔ اس تناظر میں اس حلقے سے نون لیگ کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے۔ اسی طرح آزاد حیثیت میں پی پی تراسی خوشاب سے کامیاب ہونے والے ملک غلام رسول سانگلہ نے اڑسٹھ ہزار نو سو انسٹھ ووٹ لے کر نون لیگ کے محمد آصف ملک کو شکست دی تھی۔ آصف ملک کو سینتالیس ہزار چھ سو چوراسی ووٹ ملے تھے۔ جبکہ اس حلقے میں پی ٹی آئی پانچویں نمبر پر تھی اور اس کے امیدوار غلام اصغر خان کو محض آٹھ ہزار پانچ سو سترہ ووٹ ملے تھے۔ یوں اس سیٹ پر بھی نون لیگ کی گرفت مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ بھکر سے کامیاب امیدوار اور جہانگیر ترین گروپ کے اہم رکن سید اکبر خان نوانی بھی آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے انسٹھ ہزار تین سو پچاس ووٹ لئے تھے۔ جبکہ نون لیگ کے امیدوار عرفان اللہ خان نیازی کو چوالیس ہزار نوسو پندرہ ووٹ ملے تھے۔ یہاں بھی تیسرے نمبر پر آنے والی پی ٹی آئی کے امیدوار احسان اللہ خان صرف بارہ ہزار نوسو ترانوے ووٹ لے سکے تھے۔ محمد اجمل چیمہ نے بھی پی پی ستانوے فیصل آباد سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن جیتا اور بیالیس ہزار دوسو تہتر ووٹ حاصل کئے۔ البتہ یہاں تحریک انصاف کے امیدوار علی افضل ساہی سینتیس ہزار نوسو بتیس ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر تھے جبکہ نون لیگ کے امیدوار آزاد علی تبسم نے پینتیس ہزار دوسو اٹھانوے ووٹ لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ چونکہ اب ڈی سیٹ ہونے والے ایم پی ایز کو اس حلقے میں نون لیگ بھی سپورٹ کر رہی ہے لہٰذا محمد اجمل چیمہ کی پوزیشن مضبوط قرار دی جارہی ہے۔ آزاد امیدوار کی طور پر دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے پی پی ایک سو پچیس جھنگ کے فیصل حیات جبوانہ نے بھی پی ٹی آئی امیدوار کو واضح اکثریت سے شکست دی تھی۔ اسی طرح آزاد امیدوار کی حیثیت سے پی پی ایک سو ستائیس جھنگ سے الیکشن جیتنے والے مہر محمد اسلم نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو شکست دی تھی۔ اور بعد میں خود بھی پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے تھے۔ اس حلقے میں فیصل حیات کی سیاسی حیثیت خاصی مضبوط ہے۔

آزاد امیدوار کی حیثیت سے دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں صوبائی سیٹ جیتنے والے جواں سال محمد سلمان نعیم کا سب سے بڑاکارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ملتان میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے خلاف الیکشن جیتا تھا۔ شاہ محمود قریشی اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کے مضبوط امیدوار تصور کئے جارہے تھے۔ تاہم ایک ناتجربہ کار اور نوجوان کے ہاتھوں اس شکست نے شاہ محمود قریشی کو وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے باہر کردیا تھا۔ محمد سلمان نعیم کی اپنے حلقے میں سیاسی حیثیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جبکہ سترہ جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں اس بار انہیں نون لیگ کی سپورٹ بھی حاصل ہوگی۔ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر رکن پنجاب اسمبلی بننے والے محمد طاہر رندھاوا نے پی پی دو سو بیاسی لیہ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کی یہ سیٹ بھی مضبوط تصور کی جاتی ہے۔ جبکہ پی پی دوسو اٹھاسی ڈیرہ غازی خاں سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کرنے والے محسن عطا خان کھوسہ کو اپنی برادری کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ وہ بھی اپنی سیٹ آسانی سے نکال لیں گے۔

اسی طرح ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والے دیگر ڈی سیٹ ارکان میں سے اکثریت ایسے الیکٹ ایبلز کی ہے، جو اس سے قبل مختلف پارٹیوں میں رہے اور ان کا اپنا ووٹ بینک ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی چھوڑنے کے باوجود اس ووٹ بینک پر زیادہ اثر پڑنے کے امکانات کم ہیں۔ ان میں میاں خالد محمود بھی شامل ہیں، جو پی پی ایک سو چالیس شیخوپورہ سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر نون لیگ کا امیدوار تھا۔ ضمنی الیکشن میں نون لیگ کی سپورٹ کے سبب ان کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ جبکہ قاف لیگ سے دو ہزار دو میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے عبدالعلیم خان کی پوزیشن بھی ضمنی الیکشن میں مضبوط قرار دی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ علیم خان کو عمران خان کے اے ٹی ایمز میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو ہزار بارہ میں پی ٹی آئی میں شمولیت حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہی دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پی پی ایک سو اٹھاون لاہور سے کامیابی حاصل کی تھی۔ بعد ازاں ان کے راستے پی ٹی آئی سے جدا ہوگئے۔ اسی طرح محمد امین ذوالقرنین کا شمار بھی الیکٹ ایبلز میں ہوتا ہے۔ اپنے کیریئر کے آغاز میں وہ آزاد امیدوار کے طور پر نائب ناظم گلبرگ ٹائون منتخب ہوئے تھے۔ دو ہزار پانچ میں قاف لیگ جوائن کرلی۔ پھر تحریک انصاف میں چلے گئے تھے۔ ڈی سیٹ ہونے والے دیگر الیکٹ ایبلز میں ملک نعمان احمد لنگڑیال، زہرہ بتول اور محمد سبطین رضا شامل ہیں۔

واضح رہے کہ بیس جولائی کو پنجاب کے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے والے ڈی سیٹ ایم پی ایز میں نذیر احمد چوہان، ملک اسد علی کھوکھر، زوار حسین وڑائچ اور نذیر احمد خان بھی شامل ہیں۔