نواز طاہر:
لاہور میں پسند کی شادی کرنے والی کراچی کی رہائشی لڑکی دعا زہرہ اپنے کئی بیانات میں شوہر ظہیر احمد کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش کا اظہاراوراپنے اغوا کے الزام مسترد کرچکی تھی۔ تاہم اب دعا زہرہ پر اس کے سابقہ بیانات تبدیل کروانے کیلیے کراچی میں انتہائی اعلیٰ سطح پر دبائو ڈالے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ تاکہ دعا زہرہ کا نکاح ختم کروایا اور اس کے شوہر کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرایا جاسکے۔ اس ضمن میں دعا کی ساس اور وکیل نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ دبائو سندھ حکومت کی اہم شخصیت شہلا رضا کی جانب سے ڈالا جارہا ہے۔ دعا کی ساس اور وکیل نے مطالبہ کیا ہے کہ دعا زہرہ کو فوری طور پر سندھ سے منتقل کیا جائے۔ جبکہ کرچی میں انڈر ٹرائل کیس لاہور یا راولپنڈی، اسلام آباد سمیت کسی دوسرے صوبے کے شہر میں چلانے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔ ساتھ ہی دعا اور ظہیر کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات میں ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
لاہور میں موجود دعا زہرہ کی جیٹھانی کا ’’’امت‘‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ، دعا زہرہ اپنے تایا زاد کی نازیبا حرکات اور والدین کے کان نہ دھرنے پر رنجیدہ ہوجاتی تھی۔ وہ ہمارے ساتھ بہت خوش تھی مجھے مختصر سے عرصہ میں یہ محسوس ہی نہیں ہوسکا کہ یہ میری دیورانی ہے یا ہم چوٹھی بڑی بہنیں ہیں۔ وہ کسی صورت ظہیر کو چھوڑ کر کراچی واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ معلوم نہیں کہ میڈیا کو یہ کہاں سے سوجھی کہ دعا اور ظہیر میںتعلقات کشیدہ تھے۔ جبکہ اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ دونوں میں جیسا پیار پہلے دن تھا، آج بھی برقرار ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ جس طرح کراچی میں اس پر دبائو ڈالا جارہا ہے، دعا اور ظہیر کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ ان کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔
ظہیر کے وکیل علی حسن جعفری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس سماجی معاملے کو اب مزید کئی ’’دوسرے رخ‘‘ دیئے جارہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کراچی میں روزانہ دعا زہرہ سے ملتی ہیں اور اپنے بیان سے منحرف ہونے کیلئے دبائو ڈال رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی مرحلے پر ظہیر اور دعا کو کوئی نقصان پہنچا، جیسا کہ دھمکیاں دی جارہی ہیں، تو اس کی ذمہ دار شہلا رضا ہوں گی۔ ہمیں دونوں کی زندگی کو لاحق خطرات کے ساتھ ساتھ نا انصافی کے خدشات بھی ہیں۔ کیونکہ دعا کی عمر کا تعین کرنے والے بورڈ کے بارے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ وہ رپورٹ غیر جانبدارانہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم سپر بورڈ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دعا ذہرہ کی جیٹھانی کے مطابق دعا زہرہ نابالغ اور انڈر ایج نہیں۔ دعا زہرہ کے والدین ضد اور انا کا شکار ہیں۔ علی حسن جعفری ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ، سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے اس کیس میں پیچیدگیاں پیدا کیں اور کچھ لوگوں نے حقائق عوام کے سامنے رکھے۔ اس کیس مین بہت سے عناصر نے منفی کردار ادا کیا اور یہاں تک باتیں پھیلائیں کی کہ دعا زہرہ اور ظہیر کے تعلقات میں کشیدگی ہے۔ جبکہ ایسی کوئی بات سرے سے ہی نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم نے مقدمے کا ٹرائل سندھ سے منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ لاہور کی عدالتوں میں بھی مقدمات زیر التوا ہیں جن میں دعا کی حوالگی اور اسے اس کے شوہر کے حوالے کیے جانے کا کیس بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، سندھ حکومت اس معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ یکطرفہ دبائو نہ ڈالے۔
دعا زہرہ کی ساس جامعہ پنجاب کے شعبہ کھیل میں جاب کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، میرے بچوں کو سندھ میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ہمیں مختلف اطراف سے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ میرے بیٹے اور بہو کوگزند پہنچنے کی صورت میں صرف شہلارضا ہی نہیں، پوری سندھ حکومت ذمہ دار ہوگی۔ جب ہم نے دعا زہرہ کے رشتے کی درخواست کے لئے اس کے والدین کے پاس جانے کی کوشش کی تھی تو دعا نے راستے میں ہی بتا دیا تھا کہ اس کے گھر والے شدید مخالفت کررہے ہیں۔ اس لیے گھر مت آئیں۔ پھر جب اس پر تشدد کیا گیا تو وہ وہاں سے نکل آئی۔ وہ میری بہو ہی نہیں بیٹی بھی ہے۔ اس کا تحفط میری ذمہ داری اور فرض ہے۔ لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اس عدالتوں میں کیس لڑ سکوں۔ میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، وزیر اعلیٰ ، پاکستان کے چیف جسٹس اور وزیراعظم سے اپیل کرتی ہوں کہ اس معاملے میں فوری مداخلت کریں۔ بصورتِ دیگر اس معاملے کو دعا زہرہ کے والدین ایسا رنگ دینے جا رہے ہیں، جس سے انارکی اور بد امنی کا شدید خطرہ ہے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے موقف لینے کیلئے سندھ حکومت کی اہم رکن شہلا رضا سے رابطے کی بار ہا کوششیں کی کی گئی۔ تاہم انہوں ہر بار فون ڈس کنیکٹ کردیا۔ انہیں متذکرہ الزامات پر وضاحت یا ان کے موقف کے بارے میں تحریری اور ریکارڈ پیغام دینے کا میسج بھی دیا گیا۔ لیکن انہوں نے اپنا موقف دینے یا کوئی وضاحت پیش کرنے سے گریز کیا۔