امت رپورٹ:
ستمبر کا آخری ہفتہ ملکی سیاست میں ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے۔ عمران خان رواں ماہ کی آخری تاریخوں میں دوسرے لانگ مارچ کا پلان بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کو جواب جمع کرانے کی مہلت ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ختم ہو رہی ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کے بقول اس مہلت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ اور یہ کہ عمران خان کے خلاف چلنے والے مختلف کیسوں میں سب سے زیادہ خطرہ انہیں اسی ممنوعہ فنڈنگ کیس سے ہے۔ جس پر سزا ہوجانے کی صورت میں عالمی برادری بھی مخالفت نہیں کرے گی۔
واضح رہے کہ اس وقت عمران خان کے خلاف توہین عدالت، توہین الیکشن کمیشن، توشہ خانہ ریفرنس اور ممنوعہ فنڈنگ کے کیس ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ توشہ خانہ ریفرنس اور توہین کے کیسوں میں عمران خان بچ نکلیں گے۔ تاہم ممنوعہ فنڈنگ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا بچنا خاصا مشکل ہے۔ یوں متذکرہ ان تمام چاروں کیسوں میں سے عمران خان کے خلاف سب سے زیادہ خطرناک فارن فنڈنگ کیس ہے۔ جس میں ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطگی کے ساتھ پی ٹی آئی سربراہ کی نااہلی خارج از امکان نہیں۔ ان سارے معاملات پر بیک گرائونڈ میں ہونے والی ڈویلپمنٹ سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کو اگر سزا ہو جاتی ہے تو عالمی برادری بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گی۔ جیسا کہ حال ہی میں عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے پر انٹرنیشنل کمیونٹی نے ری ایکٹ کیا تھا۔ کیونکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی کو عارف نقوی نے بھی بھاری رقوم دیں۔ جو انٹرنیشنل کمیونٹی کا ایک ارب ڈالر فراڈ کے ذریعے ہڑپ کرجانے کا ملزم ہے۔ امریکیوں اور برطانویوں کا پیسہ کھانے والے عارف نقوی کی آف شور کمپنی کے ذریعے پی ٹی آئی کو بھاری فنڈنگ کی تصدیق پہلے الیکشن کمیشن پاکستان اور پھر فنانشل ٹائمز کرچکا ہے۔ اس برطانوی روزنامے کی خبروں کی مغرب میں بہت زیادہ ساکھ ہے کہ وہ بغیر دستاویزی شواہد کے رپورٹ شائع نہیں کرتا۔ جبکہ پی ٹی آئی نے بھی تاحال فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق عارف نقوی نے بل گیٹس سمیت امریکی اور برطانوی شہریوں کے ساتھ جو ایک ارب ڈالر کا فراڈ کیا ہے۔ امریکی تفتیش کار مسلسل تحقیقات کر رہے ہیں کہ فراڈ کا یہ پیسہ کس کس کو گیا۔ اس میں پی ٹی آئی شامل ہے۔ عارف نقوی کی آف شور کمپنی کے ذریعے پی ٹی آئی کو ہونے والی فنڈنگ کی پوری منی ٹریل اور دیگر دستاویزی شواہد امریکی تفتیش کاروں کے پاس بھی موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایسے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی اور عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سزا سنائی جاتی ہے تو انٹرنیشنل کمیونٹی اس کی مخالفت نہیں کرے گی۔ ذرائع کے بقول اس قصے کا فنانشل ٹائمز میں شائع ہونا محض ایک نیوز اسٹوری نہیں۔ بلکہ اس کے پیچھے تیار کردہ پورا ایک پھندا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں انیس ستمبر تک پی ٹی آئی کو جواب جمع کرانے کی مہلت میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔ اگر کسی وجہ سے کچھ مزید دن دے دیئے جاتے ہیں تو پھر بھی اس کیس کو نمٹانے میں مزید تاخیر نہ کرنے کا اور اسے جلد منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کو پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ جانے کا حق ہوگا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے چھ ستمبر کو ہونے والی سماعت کے موقع پر تحریک انصاف کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں جواب جمع کرانے کے لئے مزید دو ہفتے کی مہلت دی تھی۔ جو انیس ستمبر کو ختم ہوجائے گی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے چار رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کے وکیل شاہ خاور کو اگلے دو ہفتوں میں ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاکہ دلائل شروع کئے جا سکیں۔ یہ دوسرا موقع تھا، جب ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کو ریکارڈ جمع کرانے کے لئے دو ہفتے کی مہلت دی گئی۔ قبل ازیں تئیس اگست کی سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کیس میں بہت زیادہ دستاویزات ہیں۔ لہٰذا انہیں نوٹس کا جواب دینے کے لیے دو ہفتے درکار ہیں۔ جس پر الیکشن کمیشن نے سماعت چھ ستمبر تک ملتوی کر دی تھی۔
الیکشن کمیشن پاکستان نے دو اگست کو پی ٹی آئی کے خلاف تقریباً آٹھ برس سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ حاصل کی۔ اور یہ کہ پی ٹی آئی کو امریکہ، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے ملنے والی فنڈنگ ممنوعہ قرار دی گئی ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے عارف نقوی کی آف شور کمپنی سمیت چونتیس غیر ملکیوں سے فنڈز لئے۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن کی جانب سے دو اگست کو سنائے گئے فیصلے کی روشنی میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کرکے تئیس اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن عمران خان حسب معمول تاحال الیکشن کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔ جبکہ ان کے وکلا ریکارڈ جمع کرنے کے نام پر مسلسل الیکشن کمیشن سے مہلت مانگ رہے ہیں۔ جسے پی ٹی آئی کے تاخیری حربوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے دو اگست کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کر رکھا ہے۔ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کے بعد عدالت عالیہ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
ادھر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے منگل کے روز بنی گالہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ستمبر میں حکومت کے خلاف کال دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ رواں مہینے ہی احتجاج کی کال دے دیں گے۔ واضح رہے کہ ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر پیر کو شائع اپنی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے گوجرانوالہ جلسے میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنا تھا۔ تاہم تاریخ پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے یہ اعلان ملتوی کر دیا گیا۔ لانگ مارچ کے حوالے سے بیس سے پچیس ستمبر کے درمیان کال دی جا سکتی ہے۔ حتمی تاریخ کا اعلان پی ٹی آئی کور کمیٹی کے اجلاس میں مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ اب خود عمران خان نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے رواں مہینے حکومت کے خلاف احتجاج کی کال دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اگرچہ عمران خان نے لانگ مارچ کے بجائے احتجاج کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تاہم ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ کال لانگ مارچ کے لیے ہی ہوگی۔ اس حوالے سے بیس اور پچیس ستمبر کے درمیان کی کوئی تاریخ زیر غور ہے۔ تاہم پارٹی کے چند سخت گیر رہنمائوں کی تجویز ہے کہ لانگ مارچ کے لئے اٹھارہ ستمبر کی تاریخ دے دی جائے۔ تاہم اس سارے معاملے میں ملک میں سیلابی صورتحال کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔ عمران خان کو سیلابی پانی کے اترجانے کا انتظار ہے۔ حتمی تاریخ طے کرنے کے لئے کور کمیٹی کا اجلاس جلد متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کا خیال ہے کہ پچیس مئی کے مقابلے میں اس بار لانگ مارچ کامیاب ہوجائے گا۔ کیونکہ اب پی ٹی آئی کے پاس پنجاب بھی ہے۔ پچھلے لانگ مارچ کی ناکامی کا بڑا سبب یہ تھا کہ نون لیگی حکومت کے کریک ڈائون نے پنجاب سے پی ٹی آئی کے ووٹرز و سپورٹرز کو نکلنے نہیں دیا تھا۔