محمد قاسم:
پشاور سمیت خیبرپختون کے دیگر اضلاع میں بجلی اورگیس کا بحران سنگین ہو گیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھائے جانے سے گھریلو صارفین شدید متاثر ہو گئے ہیں۔ تجارتی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ جبکہ گیس کے کم پریشرکے باعث 80 فیصد سی این جی اسٹیشن بند ہو گئے۔ جس کے باعث ہزاروں ملازمین اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ سوئی گیس کی بڑھتی لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر کیخلاف شہر کے مختلف علاقوں میں مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پشاور سمیت صوبہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بجلی اور سوئی گیس کا بحران انتہائی سنگین ہو گیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھائے جانے سے جہاں گھریلو امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ وہیں تجارتی سرگرمیاں بھی ٹھپ ہو کرر ہ گئی ہیں۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے بجلی بلوں میں نت نئے ٹیکسز عائد کئے جارہے ہیں۔ صرف 20 یونٹ استعمال کرنے والوں کا بل بھی 8 سے 10 ہزار روپے آرہا ہے۔ تو دوسری جانب عوام کو بجلی بھی فراہم نہیں کی جارہی۔ چوبیس گھنٹوں کے دوران 12 گھنٹے بجلی غائب رہنا معمول بن گیا ہے۔ پشاور میں اس وقت لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 8 گھنٹوں تک محیط ہے۔ تاہم نواحی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ 12گھنٹوں سے زائد کی جارہی ہے۔
ادھر صبح سے رات گئے تک وقفے وقفے سے سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور طویل بندش کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ساتھ ہی کم پریشر کی شکایات بھی ہیں۔ جس سے گھروں میں ناشتے کی تیاری اور دیگر امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ خاص کر بچے بغیر ناشتہ کئے اسکولوں کو جانے پر مجبور ہیں۔ دفاتر جانے والے افراد بھی گھروں کے بجائے دفتروں میں ہی ناشتہ و دوپہر کا کھانا بازار سے لاکر کھارہے ہیں۔ پشاور شہر کے وسط میں واقع فقیر آباد، دلزاک روڈ، چارسدہ روڈ، ہشت نگری، لاہوری، کریم پورہ، گھنٹہ گھر، قصہ خوانی، شعبہ بازار، خیبر بازار، نمک منڈی، گنج، یکہ توت، کوہاٹی، رامداس، بیرسکو، شیخ آباد، حسین آباد اور گلبہار سمیت دیگر علاقوں میں بجلی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 8 سے 10 گھنٹوں تک جا پہنچا ہے۔ جبکہ سوئی گیس کی بندش معمول ہے۔ صرف چوبیس گھنٹوں میں چار سے پانچ گھنٹے بڑی مشکل سے گیس بحال رہتی ہے۔ اس کے علاوہ کم پریشر معمول بن گیا ہے۔
اندرون شہر کے علاقے لاہوری کے رہائشی محمد کامل نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایک طرف شدید گرمی میں بجلی غائب ہے، تو دوسری جانب سوئی گیس بھی نہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں بازار سے ناشتہ اور کھانا لانا انتہائی مشکل ہے۔ وہ ایک وقت کے کھانے پر ہی گزارا کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ گیس کے پرانے پائپ لائن جب لگے تھے تو ان سے ٹھیک ٹھاک سوئی گیس گھروں کو سپلائی ہو رہی تھی۔ نہ لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور نہ کم پریشر کا مسئلہ تھا۔ لیکن جب سے نئے پائپ لائن ڈالے گئے ہیں تو ایک طرف سوئی گیس کا پریشر کم ہو گیا ہے اور بدترین لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ پشاور سمیت کئی اضلاع میں بجلی و سوئی گیس کے بحران کیخلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔
دوسری جانب شہر کی گلیوں اور سڑکوں کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔ انتظامیہ اتنی زحمت نہیں کرتی کہ کھدائی کی جگہ پر مرمتی کام کرے۔ جس کے باعث جہاں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔ وہیں بارش کے بعد کیچڑ اور گندگی کے باعث پیدل چلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ حکومت سوئی گیس اور خاص کر بجلی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے اقدامات کرے۔
پشاور کے تجارتی مرکز شاہین بازار میں بچوں اور خواتین کے ملبوسات سمیت دیگر اشیا فروخت کرنے والے محمد تحسین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بجلی لوڈشیڈنگ سے ان کا کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ ایک طرف حکومت بجلی کے بلوں میں نت نئے ٹیکسز لگا کر ہمارے بچوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری جانب صحیح طریقے سے کاروبار بھی نہیں کرنے دیا جارہا۔ وقفے وقفے سے بجلی بندش سمیت طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ کے باعث خریدار بازاروں کا رخ نہیں کرتے۔ جنریٹر کے لئے پٹرول کا خرچہ جیب پر بھاری ہے۔ کیونکہ پٹرول کی قیمتوں میں بھی حکومت نے زبردست اضافہ کر رکھا ہے۔
حکومت سے التجا ہے کہ بجلی کے بلوں سے نت نئے ٹیکسز کے خاتمے سمیت لوڈشیڈنگ بھی ختم کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ دوسری جانب گیس کے کم پریشر کے باعث پشاور میں 80 فیصد سی این جی اسٹیشن بند ہو گئے ہیں۔ جس سے نہ صرف ہزاروں ملازمین گھروں پر بیٹھ گئے ہیں۔ بلکہ ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ مزدور بھی روز گار ہوگئے ہیں۔ پشاور جی ٹی روڈ سمیت صدر روڈ کی طرف جانے والے سی این جی اسٹیشنوں کو قناتیں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر فضل مقیم خان نے بتایا کہ سابقہ دور حکومت میں بھی گیس پریشر کا مسئلہ ہوا تھا۔ جبکہ موجودہ وفاقی حکومت بھی سابق حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گیس کا مسئلہ حل نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ گیس پریشر نہ ہونے کے باعث پشاور سمیت صوبہ بھر میں 80 فیصد سی این جی اسٹیشن بند ہو گئے ہیں اور سی این جی سیکٹر کو اس وقت شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سی این جی سیکٹر سے وابستہ ہزاروں مزدور اور ملازمین بے روز گار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ پشاور سمیت صوبہ بھر میں گیس پریشر کا مسئلہ فوری طور پر حل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔