محمد علی:
امریکا چین کو مشتعل کر کے تائیوان سے جنگ پر اُکسانے لگا۔ تائی پے کی فوجی امداد میں اضافے کے لئے امریکی سینیٹ نے نیا قانون منظور کرلیا ہے۔ جس کے تحت واشنگٹن نے چین کو ممکنہ حملے پر ’’خبردار‘‘ کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ روس سے دشمنی میں یوکرین کو بھی قربانی کا بکرا بنا چکا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے بھی امریکا نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو سخت پابندیاں لگائیں گے۔
امریکا کی افغان جنگ تو اس کی بدترین شکست کے ساتھ ختم ہو گئی۔ لیکن اب اس نے نئے منصوبے کے تحت تنازعات کے شکار خطوں میں چنگاری لگانا شروع کر دی ہے۔ امریکی اقدامات پر چین کے ردعمل سے یقین کیا جا سکتا ہے کہ چین روس کی طرح امریکا کی چال میں نہیں آئے گا۔
دوسری جانب بین الاقوامی مبصرین نے کہا ہے کہ دنیا میں بیک وقت تین جنگوں کا خطرہ ہے۔ جس میں روس یوکرین جنگ، ارمینیا آذربائیجان کشیدگی اور چین تائیوان تنازع نمایاں ہے۔ ان میں سے دو محاذ پر امریکہ براہ راست اثر انداز ہو رہا ہے اور یوکرین و تائیوان کو فوجی ساز و سامان فراہم کر رہا ہے۔
ادھرعالمی امور سے متعلق امریکی جریدے فارن پالیسی نے کھل کر کہا ہے کہ تائیوان کو چین کے حملے یا چڑھائی سے پہلے ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ جبکہ چین نے تائیوان کو اسلحہ سے لیس کرنے کی امریکی چال کو بھیانک قرار دیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کی معمول کی بریفنگ میں اس تاثر کو سختی سے رد کیا گیا کہ چین تائیوان پر فوجی جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے۔
بدھ 14 سمتبر کی پریس کانفرنس میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ نینگ نے کہا کہ تائیوان چین کا داخلی معاملہ ہے۔ کسی کو بھی چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا حق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ون چائنا پالیسی امریکہ اور چین کے تعلقات کی بنیاد ہیں۔ امریکہ کو چاہیے کہ اس اصول پر عمل کرے اور ’تائیوان پالیسی قانون‘ کو مزید وسعت دینا چھوڑ دے۔ تائیوان سے متعلق مسائل کو عقلمندی اور مناسب انداز میں نمٹانے سے ہی چین امریکہ تعلقات کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔ چین کے اس بیان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی چین کو مشتعل کرنے کی کوشش ناکامی سے دو چار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا گزشتہ کئی دہائیوں سے تائیوان کو ہتھیار فروخت کر رہا ہے۔ تاہم امریکی سینیٹ میں منظور کردہ نئے قانون کے نتیجے میں واشنگٹن کی جانب سے تائی پے کی فوجی امداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ امریکہ اگلے چار برسوں میں اسے مزید ساڑھے 4 ارب ڈالر کے دفاعی ساز و سامان فراہم کرے گا۔
امریکی ایوان بالا سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے بدھ کے روز’تائیوان پالیسی قانون‘ کو منظوری دے دی۔ حزب اقتدار اوراپوزیشن دونوں جماعتوں نے اس کی حمایت کی۔ اسے تائیوان کے ساتھ امریکی تعلقات کو اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے 1979ء کے بعد اب تک کا سب سے اہم فیصلہ قرار دیا جارہا ہے۔ جب امریکا نے تائیوان کو تسلیم کرنے کے بجائے بیجنگ کی ’ون چائنا پالیسی‘ کی حمایت کی تھی۔ امریکی سینیٹ نے اس نئے قانون کو ایسے وقت منظوری دی ہے۔ جب امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائی پے کے دورے پر چین نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زبردست فوجی مشقیں شروع کر دی تھیں۔
اس کے علاوہ یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کی وجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چین بھی تائیوان کے خلاف اسی طرح کا قدم اٹھا سکتا ہے۔ اس تائیوان پالیسی قانون 2022ء کو نافذ العمل ہونے سے پہلے سینیٹ اور ایوان زیریں (کانگریس) سے مکمل منظوری حاصل کرنا ہوگی۔ اس کے بعد صدر جوبائیڈن اس کی توثیق کریں گے۔ حالانکہ اس بل کی جس انداز میں حمایت کی گئی ہے۔ اس سے توقع ہے کہ اس کی منظوری میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ وائٹ ہائوس نے تاہم فی الحال یہ بتانے سے منع کر دیا کہ آیا صدر جوبائیڈن اس پر دستخط کریں گے یا نہیں۔
وائٹ ہائوس کی پریس سیکریٹری کیرین ژاں پیئر نے صرف اتنا کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اس قانون کے حوالے سے قانون سازوں کے رابطے میں ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم تائیوان کے حق میں دونوں جماعتوں کی جانب سے اس مضبوط حمایت کا خیر مقدم کریتے ہیں اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریں گے‘‘‘‘۔ نئے قانون سے کئی اصطلاحات بھی بدل جائیں گی۔ جنہیں امریکا اب تک چین کی ناراضی سے بچنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
تائیوان میں عملاً سفارت خانے کے طور پر کا کرنے والے ’’تائی پے اکنامک اینڈ کلچرل ری پریزنٹیٹِو آفس‘‘ کو ’’تائیوان ری پریزنٹیٹِو آفس‘‘ کہا جائے گا۔ اور امریکی حکومت کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ تائیوان کے ساتھ بھی اسی طرح کا رابطہ رکھے۔ جیسا کہ دنیا کی کسی دیگر حکومت کے ساتھ رکھتا ہے۔