امت رپورٹ:
بھارت سے آزاد ایک الگ سکھ ریاست ’’خالصتان‘‘ کے لئے کینیڈا میں ریفرنڈم کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں پچھلے دو تین ہفتوں سے کینیڈین دارالحکومت ٹورنٹو میں خالصتانی پرچموں کی بہار ہے۔ مختلف شاہراہوں اور مقامات پر ریفرنڈم کے حوالے سے بینرزآویزاں ہیں۔ ٹورنٹو میں آج اتوار کو ہونے والے اس ریفرنڈم میں ہزاروں سکھ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
خالصتان ریفرنڈم کا آغاز سکھ فار جسٹس نامی تنظیم نے گزشتہ برس اکتیس اکتوبر کو برطانیہ (لندن) سے کیا تھا۔ اب تک اس سلسلے میں برطانیہ، سوئٹزرلینڈ ، اٹلی اور آسٹریلیا میں ریفرنڈم کرایا جاچکا ہے۔ جس کے حق میں بیرون ملک مقیم ساڑھے چار لاکھ سے زائد سکھ اپنا ووٹ دے چکے ہیں۔ خالصتان ریفرنڈم میں سکھوں سے اس سوال کا جواب طلب کیا جاتا ہے کہ ’’کیا ہندوستان کے زیرانتظام پنجاب کو ایک آزاد ملک ہونا چاہئے؟ ‘‘
خالصتان تحریک برطانیہ چیپٹرکے رہنما رنجیت سنگھ کے مطابق کینیڈا میں آج ہونے والے ریفرنڈم کے بعد خالصتان کے حق میں ووٹ ڈالنے والے سکھوں کی تعداد سات لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ کیونکہ ریفرنڈم کے منتظمین کا اندازہ ہے کہ خالصتان کے حق میں دو سے ڈھائی لاکھ کینیڈین سکھ اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ بھارت کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ سکھ برادری کینیڈا میں مقیم ہے۔ واضح رہے کہ سکھ کمیونٹی کینیڈا کی آبادی کا قریباً ڈیڑھ فیصد ہے۔
ورلڈ سکھ آرگنائزیشن آف کینیڈا کے مطابق ملک میں تقریباً پانچ لاکھ سکھ آباد ہیں۔ رنجیت سنگھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کینیڈا میں خالصتان پر ریفرنڈم کے حوالے سے جوش و خروش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ایونٹ سے تقریباً ایک ماہ قبل ہی اس کی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں۔ اس سلسلے میں دو ہفتے پہلے کینیڈین سکھوں نے خالصتان کی حمایت میں ایک بڑی کار ریلی نکال کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ کئی کلومیٹر طویل اس ریلی میں کاروں اور ٹرکوں سمیت دو ہزار گاڑیاں شامل تھیں۔ اسی طرح پانچ روز قبل ٹورنٹو میں خالصتان ریفرنڈم کی کامیابی کے لئے پچاس ہزار سے زائد سکھوں نے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق اجتماعی دعا کی۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے رنجیت سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ قابض بھارت کے برے دن آچکے ہیں۔ آزادی کی تحریک اب اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ریفرنڈم ایک جمہوری عمل ہے۔ اس کا مقصد اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کو یہ باور کرانا ہے کہ سکھ کمیونٹی اب کسی صورت بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور اپنا الگ وطن چاہتی ہے۔ ریفرنڈم کی وجہ سے دنیا میں سکھوں کا پیغام آزادی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود ریفرنڈم کے عمل کو بھارتی حکومت رکوانے میں ناکام ہے۔ برطانیہ سے جب خالصتان ریفرنڈم کا آغاز کیا گیا تھا تو مودی سرکار نے اسے رکوانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا تھا۔ حالانکہ برطانیہ، تجارت سے لے کر دیگر معاملات میں بھارت کا قریبی پارٹنر ہے۔ اس کے باوجود ریفرنڈم رکوانے سے متعلق مودی سرکار کے دبائو کو برطانوی حکومت نے مسترد کردیا تھا۔ کینیڈین حکومت پر بھی مودی سرکار نے اسی نوعیت کا دبائو ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی اور اب اتوار کے روز کینیڈا میں بھی سکھوں کی بڑی تعداد ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لے گی۔ ریفرنڈم کا یہ سلسلہ دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پھیلایا جائے گا۔ اگر اس جمہوری کوششوں کے باوجود بھارت نے سکھوں کو آزادی دینے سے انکار کیا تو پھر آخر کار فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مشرقی پنجاب متعصب ہندو ریاست سے آزاد کرالیا جائے گا۔
کونسل آف خالصتان کے صدر ڈاکٹر بخشش سنگھ سندھو بھی ریفرنڈم میں حصہ لینے کے لئے امریکہ سے کینیڈا پہنچے ہیں۔ ایک پاکستانی صحافی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بخشش کا کہنا تھا ’’ہم مشرقی پنجاب کو ہندوستان کے قبضے سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ریفرنڈم کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اب یہ ریفرنڈم کینیڈا میں کرایا جارہا ہے۔ جس میں کینیڈین سکھوں کی ایک بھاری تعداد حصہ لے رہی ہے۔‘‘ بخشش سنگھ سندھو کے بقول انیس سو سینتالیس میں ہندوستان آزاد ہوا تو سکھوں نے ہندوستان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیونکہ سکھوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں خود مختار ریاست دی جائے گی۔ جس میں ہر قسم کی آزادی میسر ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس ہندوستانی سرکار تمام وعدوں سے مکر گئی۔ اب سکھوں کا ایک ہی نقطہ ہے کہ ہندوستان سے آزادی کے بغیرانہیں کسی قسم کے حقوق نہیں مل سکتے۔ لہٰذا سکھوں کی نئی نسل کی بقا کے لئے آزادی ضروری ہوچکی ہے۔
آج اتوار کو کینیڈا کے دارالحکومت ٹورنٹو میں ہونے والے خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ گورمیڈوز ریکریشن سینٹر میں ہوگی۔ اس کا انعقاد سکھ فار جسٹس نے کیا ہے۔ اب تک کے تمام ریفرنڈم اس تنظیم کے بینر تلے کرائے گئے ہیں۔ سکھ فار جسٹس کے ترجمان گروپت ونت پنوں کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں مقیم سکھوں نے اپنے جوش و خروش سے یہ ثابت کیا ہے کہ خالصتان کے نام پر ایک آزاد ریاست کے لئے وہ کتنے بے تاب ہیں۔ یہ مغرب میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والی تیسری نسل کے سکھوں میں بیداری کی ایک نئی صبح ہے۔ یہ سکھ نوجوان ہیں جو اب خالصتان کے لئے مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ ہندو توا کے حامی انتہا پسند مودی سرکار کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہے۔ پنوں کا مزید کہنا تھا کہ سکھ حق خود مختاری مانگ رہے ہیں، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام لوگوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔ لہٰذا یہ کوئی غیر قانونی مطالبہ نہیں ۔