ندیم محمود:
الیکشن کمیشن پاکستان میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف دو کیسوں میں سے ایک کا فیصلہ محفوظ کیا جاچکا ہے، جبکہ فنڈنگ ضبطگی کیس میں جواب کے لئے مزید ڈیڑھ ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ ان دونوں کیسوں کی قانونی جزئیات سے واقف ماہرین اورذرائع کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اگرچہ تحریک انصاف کو چھ ہفتوں کی مہلت مل گئی ہے، لیکن اس کیس سے بچنا اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد کے بقول اس کیس کا فیصلہ ملک کی سیاسی تاریخ کا نقشہ تبدیل کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پیر کے روز الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں تحائف ظاہر نہ کرنے پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نا اہلی کے ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جبکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کو مکمل تفصیلات جمع کرانے کے لئے چھ ہفتوں کی مہلت دیدی۔
عام توقعات یہی تھیں کہ ممنوعہ فنڈنگ ضبطگی کیس میں تحریک انصاف کو مزید مہلت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے کہ رواں برس دو اگست کو اپنے متفقہ فیصلے میں، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز ملے۔ جبکہ پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کرلئے جائیں۔ یعنی فیصلے کے بعد اب الیکشن کمیشن نے سزا کا تعین کرنا ہے، جس میں فنڈز کی ضبطگی سرفہرست ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے وکلا کو شوکاز نوٹس کے جواب میں یہ ثابت کرنا ہے کہ پارٹی کو ممنوعہ فنڈنگ نہیں ہوئی۔ پچھلی سماعت کے موقع پر جب پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب جمع کرانے کے لئے مزید مہلت مانگی تھی تو الیکشن کمیشن کے بنچ نے ریمارکس دیئے تھے کہ یہ کیس گزشتہ آٹھ برس سے چل رہا ہے، اور کتنی مہلت چاہئے۔ اس کے باوجود تازہ سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل نے مکمل جواب کے لئے مزید آٹھ ہفتے مانگے۔ جس پر الیکشن کمیشن نے چھ ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے سماعت چھ نومبر تک ملتوی کردی۔
اس کیس کی پس پردہ ڈویلپمنٹ سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ماہ کی مہلت اگرچہ پی ٹی آئی کو اپنے حق میں دکھائی دے رہی ہے لیکن یہ مہلت اس کے گرد شکنجہ مزید سخت کردے گی۔ کیونکہ اب ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تفتیش کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو شواہد اکٹھا کرنے کے لئے مزید وقت مل گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے اس حوالے سے دن رات نہایت جانفشانی کے ساتھ کام کر رہی ہے اور اب تک ایسے اہم اور ناقابل تردید ٹھوس دستاویزی شواہد اکٹھا کرکے الیکشن کمیشن کے حوالے کرچکی ہے کہ ای سی پی کو سزا سے متعلق فیصلہ سنانے میں ناصرف آسانی ہوگی بلکہ اس فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنا بھی پی ٹی آئی کے لئے زیادہ موثر ثابت نہیں ہوپائے گا۔ ذرائع کے بقول دوران تفتیش بعض ایسے شواہد اور دستاویزات بھی ایف آئی اے نے دریافت کی ہیں، جن کا علم الیکشن کمیشن پاکستان کو بھی نہیں تھا۔ اب مزید ڈیڑھ ماہ کی مہلت کے سبب ایف آئی اے کو یہ ایڈوانٹیج ملا ہے کہ وہ اس عرصے کے دوران مزید شواہد اکٹھا کرلے۔ ان شواہد تک رسائی رکھنے والے ذرائع کا دعویٰ تھا کہ توشہ خانہ سمیت دیگر معاملات میں پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کی بچت شاید ممکن ہے لیکن ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بچنا بہت مشکل ہوگا۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی تو صرف ممنوعہ پیسہ ضبط نہیں ہوگا بلکہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی کو نا اہل قرار دے کر اس کے دفاتر سیل کئے جاسکتے ہیں۔ کنور دلشاد کے بقول اگر پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ آتا ہے اور الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ پارٹی کو ممنوعہ فنڈنگ ملی تو وہ وفاقی حکومت کو ریفرنس بھیجے گا۔ حکومت ریفرنس موصول ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور پارٹی کے خلاف آرٹیکل سترہ کے تحت ریفرنس دائر کرے گی۔ جس پر سپریم کورٹ کا ایک فل بنچ سماعت کرے گا۔ تاہم حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے سے پہلے الیکشن کمیشن کی سزا کو پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتی ہے۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا ’’میرے نزدیک ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کو مہلت ملنا خوش آئند ہے۔ اگر مہلت نہ دی جاتی تو شاید الیکشن کمیشن پر حرف آجاتا۔ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں پی ٹی آئی یقینا اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ لہٰذا مہلت نہ ملنے پر وہ یہ جواز بناسکتی تھی کہ اسے تفصیلات جمع کرانے کے لئے الیکشن کمیشن نے مناسب وقت نہیں دیا اور جلد بازی میں سزا سنادی۔ اب پی ٹی آئی کے پاس اس نوعیت کا جواز باقی نہیں رہے گا۔‘‘ کنور دلشاد نے بھی تصدیق کی کہ ایف آئی اے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اہم شواہد حاصل کرچکی ہے۔ اور مہلت کے نتیجے میں اسے مزید دستاویزی شواہد اکٹھا کرنے کا موقع ملا ہے۔ جبکہ یہ مہلت دینے کا فائدہ خود الیکشن کمیشن کو بھی ہوگا۔ اس عرصے کے دوران الیکشن کمیشن کو ممنوعہ فنڈنگ کیس سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ اور پی ٹی آئی کا جواب پڑھنے کے لئے خاصا وقت مل جائے گا۔ کیونکہ فیصلہ سنانے سے پہلے الیکشن کمیشن نے ایف آئی اے کے شواہد اور رپورٹ کی چھان بین کرنی ہے۔ کوئی ابہام ہوگا تو الیکشن کمیشن، ایف آئی اے سے پوچھ سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کی صورت میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد اہم رہنما نا اہل قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ ان میں سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، سابق گورنر خیبرپختون شاہ فرمان، سابق اسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر، سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، سیما ضیا، فردوس شمیم نقوی، میاں محمود الرشید اور دیگر شامل ہیں۔ کیونکہ ان کے نام ان گیارہ اکائونٹس میں ملوث ہیں، جنہیں الیکشن کمیشن سے چھپایا گیا تھا۔ ان اکائونٹس کے ذریعے متذکرہ پی ٹی آئی رہنمائوں کے نام پر ممنوعہ پیسہ آتا رہا۔ ایف آئی اے نے بھی اس سلسلے میں پی ٹی آئی رہنمائوں سے تفتیش کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پاکستان کو تحریری طور پر کہا تھا کہ اس کا ان بینک اکائونٹس سے کوئی تعلق نہیں ۔ یوں ان بینک اکائونٹس سے لاتعلقی کا اظہار کرکے ایک طرح سے پی ٹی آئی نے اپنے ہی رہنمائوں کو قربانی کا بکرا بھی بنایا۔‘‘
کنور دلشاد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ جبکہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے لئے بھی یہ فیصلہ ایک انتباہ اور مثال بن جائے گا۔
ادھر پی ٹی آئی کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں مزید ڈیڑھ ماہ کی مہلت ملنے کے حوالے سے پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک اور آٹھ برس تک غیر ملکی فنڈنگ کا کیس لڑنے والے اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ تاخیری حربے استعمال کرنا پی ٹی آئی کی پرانی عادت ہے۔ انہیں اب اس پر حیرت نہیں ہوتی۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ اس اہم کیس کے پچھلے آٹھ برسوں پر نظر ڈالی جائے تو تاخیری حربوں کی ایک بے مثال تاریخ ملتی ہے۔ پی ٹی آئی نے فیصلے کو روکنے کے لئے گیارہ کے قریب رٹ پٹیشنز کیں۔ درجنوں درخواستیں دائر کی گئیں۔ لیکن تمام تاخیری حربے ناکام رہے اور آخر کار اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے دو اگست کو اپنا فیصلہ سنادیا۔ جس میں ممنوعہ فنڈنگ ثابت بھی ہوگئی۔ اس کے بعد قانونی تقاضے کے طور پر سزا سے پہلے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس دیا تھا۔ اب اس سے پی ٹی آئی بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اس بار بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اکبر ایس بابر کے بقول اب اس کیس میں پی ٹی آئی یہ سوچ کر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے کہ شاید کچھ عرصے بعد وفاقی حکومت تبدیل ہوجائے یاکوئی اور بڑا ایونٹ ہوجائے تاکہ کسی طرح اس کی بچت کا راستہ نکل آئے ۔ لیکن اس کی یہ خوش فہمی پوری نہیں ہوگی۔