محمد اطہر فاروقی:
کراچی سمیت سندھ بھر میں ڈینگی کے کیسز میں تشویش ناک اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ تقریباً دو ہفتے کے دوران یہ وائرس ستائیس افراد کی جان لے چکا ہے۔ ان میں سے صرف ایک ہلاکت حیدرآباد میں ہوئی ہے۔ باقی دیگر تمام چھبیس افراد نے کراچی میں دم توڑا۔ ایسے میں سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی مریضوں کے لئے مناسب سہولیات کی عدم دستیابی نے صورتحال مزید سنگین بنادی ہے۔
صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں حکومتی سطح پر مریضوں کے ڈینگی ٹیسٹ اور انہیں پلیٹ لیٹس فراہم نہیں کئے جا رہے ہیں۔ اسپتالوں میں فلاحی ادارے اور نجی لیبارٹریاں مریضوں سے پیسے وصول کررہی ہیں۔جناح اسپتال میں داخل مریضوں کو بمشکل پلیٹ لیٹس فراہم کئے جاتے ہیں۔ تاہم ڈینگی کے تینوں اہم ٹیسٹوں کے لئے وہاں قائم ایک فلاحی ادارے کی لیبارٹری مریضوں سے فی ٹیسٹ پانچ سو روپے وصول کر رہی ہے ۔ جبکہ سول اسپتال، سندھ گورنمنٹ استپال ، نیو کراچی، لیاقت آباد اور سعود آباد اسپتال سمیت دیگر سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کٹس تک موجود نہیں۔
اسی طرح محکمہ صحت سندھ نے صوبے بھر میں 44 سرکاری و نجی اسپتالوں میں ڈینگی کے وارڈز قائم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے باوجود بیشتر اسپتالوں میں ڈینگی کے برائے نام وارڈز قائم ہیں۔ ان ڈینگی وارڈز میں بھی سہولیات کا سخت فقدان ہے۔ اس کے نتیجے میں مریض رل رہے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لئے پیراسیٹامول اور دیگر ادویات بھی باہر سے منگوائی جا رہی ہیں۔ کئی اسپتالوں میں بجلی کی عدم فراہمی بھی سنگین مسئلہ ہے۔ جبکہ جنریٹر کے انتظامات نہ ہونے سے مریض حبس اور گرمی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب میں ڈینگی مچھر کے لاروے کے خاتمے کے لئے مچھلیوں کو صاف پانی میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ طریقہ خاصا موثر ثابت ہورہا ہے۔ تاہم سندھ میں لاروے کے خاتمہ کے لئے کسی قسم کے عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ بھر میں میگا سرکاری اسپتالوں کی تعداد ستائیس کے قریب ہے جس میں شہر قائد کے بڑے اسپتال جناح ، سول، عباسی اور دیگر اسپتال شامل ہیں۔ مذکورہ تمام سرکاری اسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ تاہم جناح اسپتال کے سوا دیگر سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو پلیٹ لیٹس سرکاری سطح پر فراہم نہیں کئے جارہے۔ ’’امت‘‘ کی تحقیقات کے مطابق شہر کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال جناح کے 4 وارڈز میں داخل ڈینگی کے مریضوں کو مینوئل اور میگا پلیٹ لیٹس مفت فراہم کیے جارہے ہیں۔ تاہم ڈینگی کے ٹیسٹ کے لئے اسپتال میں قائم ایک فلاحی ادارے کی لیبارٹری سے پیسوں کے عوض ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر ڈینگی کے تین ٹیسٹ کئے جاتے ہیں جس میں ڈینگی این ایس آئی، ڈینگی آئی جی جی اور ڈینگی آئی جی ایم شامل ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں عام طور پر سی بی سی ٹیسٹ کے ذریعے پلیٹ لیٹس کی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ تاہم ڈینگی کے ایسے مریض جن میں پلیٹ لیٹس تشویش ناک حد تک کم ہوجائیں اور ان کے جسم کے کسی حصے سے خون بہنا شروع ہوجائے تو ایسی صورت میں ڈینگی کے تینوں ٹیسٹ کرانا لازم ہوتا ہے۔ جناح اسپتال میں داخل مریضوں کو تینوں ٹیسٹ کرانے کے لئے اسپتال میں قائم فلاحی ادارے کی لیبارٹری سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ جو تینوں ٹیسٹوں کے مجموعی طور پر پندرہ سو روپے وصول کر رہی ہے ۔
جناح اسپتال سے حاصل معلومات کے مطابق ڈینگی کے ٹیسٹ کی رپورٹ عام طور پر 2 سے 3 گھنٹے میں جاری کردی جاتی ہے۔ تاہم اس وقت کیسز میں اضافے کے باعث رپورٹ کے حصول کے لئے مریض کو ایک سے دو روز تک انتظار کرنا پڑرہا ہے۔ پلیٹ لیٹس کے حوالے سے بات کی جائے تو مینوئل پلیٹ لیٹس کے لئے مریضوں کو ڈونر دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ البتہ ڈینگی کے تشویش ناک مریضوں کو میگا پلیٹ لیٹس کی ضرورت ہوتی ہے تو ڈونر کو خون دینا لازم ہوتا ہے۔ شہر کے دیگر اسپتالوں میں، جہاں پلیٹ لیٹس کی سہولت موجود نہیں، وہاں ایسے مریضوں کے لواحقین عموماً جناح اسپتال سے رجوع کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے جناح اسپتال میں مینوئل پلیٹ لیٹس کے پندرہ سو روپے جبکہ میگا پلیٹ لیٹس کے لئے بارہ ہزار روپے وصول کئے جارہے ہیں۔ تاہم یہ فیس دیگر نجی لیبارٹریوں کی فیس کے مقابلے میں کافی کم ہے، جنہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ نجی لیبارٹریوں میں مینوئل پلیٹ لیٹس کے 3 سے 4 ہزار روپے جبکہ میگا پلیٹ لیٹس چونتیس سے چھتیس ہزار روپے وصول کئے جارہے ہیں۔
سول اسپتال سے حاصل معلومات کے مطابق یہاں سرکاری سطح پر ڈینگی ٹیسٹ کے لئے کٹس ہی موجود نہیں۔ جبکہ پلیٹ لیٹس کی بھی کوئی سہولیات موجود نہیں۔ جناح اسپتال اور سول اسپتال کے علاوہ سندھ گورنمنٹ کے تحت چلنے والے 6 سے زائد سرکاری اسپتالوں میں بھی ڈینگی ٹیسٹ اور پلیٹ لیٹس کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ جن میں سندھ گورنمنٹ اسپتال نیوکراچی، لیاقت آباد، ملیر، کورنگی، قطراورسعود آباد اسپتال شامل ہیں۔ مذکورہ اسپتالوں کی حدود اور اطراف میں درجنوں نجی لیبارٹیاں موجود ہیں، جہاں مریض پانچ سو سے 3 ہزار روپے میں ڈینگی ٹیسٹ کرارہے ہیں۔
دوسری جانب ڈینگی کیسز میں اضافے کے بعد محکمہ صحت سندھ نے صوبے بھر میں 44 سرکاری و نجی اسپتالوں میں ڈینگی کے وارڈز قائم کرنے کی ہدایت جاری کی تھیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق چوبیس گھنٹے کے اندر مذکورہ اسپتالوں میں ڈینگی کے وارڈز قائم کئے جانے تھے، جن میں کراچی کے جناح اسپتال، سول، لیاری جنرل اسپتال، قومی ادارہ برائے اطفال، سندھ گورنمنٹ کے 6 اسپتالوں سمیت اکتیس نجی و سرکاری اسپتال شامل ہیں۔ صوبے بھر کے 44 اسپتالوں میں سے بیشتر سرکاری اسپتالوں میں برائے نام ڈینگی کے وارڈ ز قائم کیے گئے ہیں۔ نیو کراچی سندھ گورنمنٹ اسپتال میں 4 بیڈ پرمشتمل وارڈ قائم کیا گیا ہے، مذکورہ وارڈ میں بستروں پر نیٹ (جالیاں ) تک موجود نہیں ہیں۔ مذکورہ اسپتال میں بجلی بندش پر جنریٹر چلانے کا بھی کوئی انتظام موجود نہیں ہے ، جس کے باعث مریض شدید گرمی اور حبس میں رہنے پر مجبور ہیں۔
سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال ،سعود آباد،کورنگی اور ملیر سمیت چند دیگر اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کو پیراسیٹامول سمیت دیگر ادوایات بھی باہر سے مہنگے داموں خریدنا پڑرہی ہیں۔ جبکہ پیناڈول ٹیبلٹ بیشتر میڈیکل اسٹورز پر دستیاب نہیں۔ جو طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی بخار کے لئے ضروری ہے۔ مذکورہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے تیمارداروں کے لئے بیٹھنے کی جگہ دستیاب نہیں۔ عموماً رات، تیماردار اسپتالوں کی پارکنگ میں گزارتے ہیں۔ کیونکہ اسپتال کے چوکیدار رات کے اوقات میں تیمارداروں کو وارڈز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔
عباسی شہید اسپتال میں سالانہ 2 کروڑ روپے صفائی کی مد میں دیئے جانے کے باوجود صفائی کے انتہائی ناقص نظام نے مریضوں اور تیمارداروں کو مزید تلخ تجربات سے دوچارکر دیا ہے۔ اسپتال میں بچوں کے وارڈ اورڈینگی وارڈ میں خاص طور پر صفائی کا ابتر ہے۔ سول اسپتال ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق ڈینگی کے وارڈ میں ایک بستر پر 2 مریضوں کو رکھا جا رہا ہے،کیونکہ ڈینگی کے وارڈ میں بستروں کی تعداد محض بیس کے قریب ہے۔
یاد رہے کہ نون لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں جب پنجاب میں ڈینگی بے قابو ہوگیا تھا تو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس وائرس پر قابو پانے کے لئے سری لنکا کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سری لنکا سے باقاعدہ ایک ٹیم پنجاب پہنچی تھی۔ جس نے پنجاب حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ڈینگی مچھر کے لاروے کو ختم کرنے کے لئے صاف پانی میں مچھلیاں چھوڑی جائیں۔ یہ طریقہ بے انتہا کامیاب رہا تھا۔ اس بار بھی پنجاب حکومت نے اسی فارمولے کو اپناتے ہوئے فیصل آباد میں صاف پانی میں مچلھیوں کو چھوڑا ہے۔ تاہم اس حوالے سے سندھ حکومت اور محکمہ صحت سندھ نے تاحال کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔
محکمہ صحت سندھ سے حاصل کردہ معلومات مطابق 5 ستمبر سے انیس ستمبر تک محض کراچی میں چھبیس افراد ڈینگی کے باعث انتقال کرگئے جبکہ ایک شہری حیدرآباد میں جاں بحق ہوا۔ حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق ضلع شرقی میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 109 ڈینگی کیس رپورٹ ہوئے۔ رواں ماہ سب سے زیادہ ڈینگی کے کیس ضلع شرقی میں ایک ہزار 235 کیس رپورٹ ہوئے ۔ جبکہ مذکورہ ضلع میں گزشتہ 14روز کے دوران 9 افراد ڈینگی کے باعث انتقال کرگئے ۔ 19ستمبر کو ضلع وسطی میں 65، ضلع جنوبی میں 21 اور ضلع ملیر میں 13 ڈینگی کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں ، جو کہ مجموعی طور پر کراچی میں 248 ڈینگی کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ کراچی کے ضلع وسطی میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں ، جہاں 14روز کے دوران 13افراد جان کی بازی ہار گئے۔
’’امت ‘‘ کی جانب سے سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی ٹیسٹ اور پلیٹ لیٹس کی سرکاری سطح پر عدم موجودگی کے حوالے سے موقف کے لئے ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ڈاکٹر حمید جمانی اور ڈائریکٹر ہیلتھ سندھ ڈاکٹر جمن سے رابطے کی متعدد کوششیں کی گئیں، لیکن رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔ ڈائریکٹر سندھ بلڈ ٹرانسفیوڑن اتھارٹی ڈاکٹر درناز جمال کے مطابق بعض اسپتال پیسہ بنانے کے چکر میں ایسا کررہے ہیں کہ بلا ضرورت مریضوں کو پلیٹ لیٹس لگوا رہے ہیں۔ انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ پلیٹ لیٹس صرف اس صورت میں لگائے جائیں جب کسی مریض میں پلیٹ لیٹس کی تعداد بیس ہزار سے کم ہو یا جسم کے کسی حصے سے خون کا اخراج ہو رہا ہو۔ ڈاکٹر درناز نے مزید بتایا کہ اب تک کراچی میں مریضوں کوساڑھے 30 ہزار سے زائد پلیٹ لیٹس لگائے جاچکے ہیں۔