اقبال اعوان:
کراچی کے شہری بخار، درد، دستوں اورالرجی کی عام دوائیوں کی عدم دستیابی سے پریشان ہونے لگے۔ قلت کا مصنوعی بحران شہریوں کی جیبوں پر بوجھ ڈالنے لگا۔ دوائی ختم ہونے یا مہنگی ہونے کا کہہ کر منہ مانگی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ پیناڈول، پیناڈول ایکسٹرا، پیراسیٹامول، پونسٹان، او آر ایس، فلیجل، بروفین اور وائرل انفیکشن کی گولیاں اور شربت نایاب ہوگئے۔
واضح رہے کہ کراچی میں ہر شعبے کے اندر موجود منافع خور مافیا کے لوگ حالات کی مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ آگے رشوت دے کر کارروائی کا ڈر نہیں ہو گا اور شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کوئی نہیں آئے گا اور وہ بلاخوف خطر کام کررہے ہیں۔ شہری مہنگائی، بے روزگاری اور خراب معاشی حالات کے پیش نظر پہلے پریشان ہیں۔ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں اور حکومتیں سب ٹھیک ہے کے اعلان الاپ رہی ہیں۔ شہری جہاں کھانے پینے کی اشیا کی مہنگی خریداری سے پریشان ہیں، وہیں شہر میں ایسی دوائیوں کی مصنوعی قلت سے پریشان ہیں جو ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ غریب مزدور اور کم تنخواہ والے خاندان نجی اسپتالوں یا کلینک پر جاکر دوائی نہیں لیتے کہ آمدنی نہیں۔ سرکاری اسپتال، ڈسپنسریاں موجود ہیں، تاہم دوائی کی پرچی لکھ کر پکڑا دی جاتی ہے کہ باہر کے میڈیکل اسٹور سے خرید لو۔ حکومت نے سیلاب، بارشوں کے متاثرین کے حوالے سے کوئی پلاننگ نہیں کی تھی۔
سرکاری طورپرفلاحی اداروں، مذہبی، سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیلاب متاثرین کو طبی امداد کیلئے جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان میں کروڑوں متاثرین کے لیے دوائی بھیجی گئیں اور کراچی شہر میں قلت کے بعد مصنوعی بحران پیدا کر کے خوب فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ کراچی میں بارشوں اور حکومتی اداروں کی نا اہلی سے موسمی وائرل بیماریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہر طرف گندگی، کچرے کے ڈھیروں، کھنڈر بنتے کراچی میں بخار بالخصوص ملیریا، ڈینگی، چکن گونیا اور موسمی بخار پھیل چکا ہے۔ بدن میں درد، دست، الٹیاں ہیضہ، ڈائریا، الرجی اور خارش کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بڑھ چکا ہے۔ سندھ، بلوچستان کے آنے والے متاثرین وبائی بیماریوں کا شکار ہیں اور اسپتالوں میں دیگر افراد کو بیماریاں تیزی سے پھیل کر لگ رہی ہیں۔ سرکاری، نجی اسپتال، نجی کلینک، سرکاری ڈسپنسریاں سب مریضوں سے بھری ہیں اور زیادہ تر بخار، ڈائریا، الرجی، خارش، بدن درد کا معاملہ ہے۔ بچے، بڑے اور خواتین ان امراض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اب جن دوائیوں کی اشد ضرورت ہے وہ شہر میں نایاب ہو چکی ہیں اور جن کا استعمال زیادہ ہوتا تھا، وہ غائب ہیں۔ اگر مل رہی ہیں تو ملتے جلتے ناموں کی دوائیوں اور مرضی کی قیمت کے طور پر دے رہے ہیں۔
شہریوں میں زیادہ تر لوگ گھروں پر پیناڈول، پیناڈول ایکسٹرا، پونسٹان، پونسٹان فورٹ، پیراسیٹامول، الرجی کی سی ڈرال گولیان، پریٹن گولیاں، ایول، فنرگن گولیاں، شربت، جبکہ کھانسی، بخار کے شربت، دستوں کے لیے او آر ایس، این ٹاکس کی گولیاں، فلیجل کی گولیاں، الٹیوں دستوں کی گولیاں اور دیگر دوائیوں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ شہریوں کو ان خبروں نے پریشان کر دیا ہے کہ ملیر میں جعلی پیناڈول بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی ہے یا شہر میں جعلی دوائیوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ اب شہری محکمہ ڈرگ والوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ میڈیسن مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ سندھ میں سیلابی صورت حال میں پیدا ہونے والے امراض کی وجہ سے متاثرین کو علاج کے لیے دوائوں کی بڑی مقدار کراچی سے بھیجی جارہی ہے، جس کی وجہ سے عام استعمال کی بخار، درد، الرجی، دستوں، خارش کی گولیاں، شربت شارٹ ہو رہے ہیں۔ جبکہ کھپت بڑھنے پر ریٹ بھی ساتھ ساتھ بڑھ گئے ہیں۔
پیناڈول کا ڈبہ 360 روپے کے بجائے 650 روپے کا مل رہا ہے اور بلیک میں 8 سے 9 سو روپے کا ہے۔ عام استعمال کی دوائیاں مہنگی کر دی گئی ہیں، کچی آبادیوں، مضافاتی آبادیوں، ساحلی آبادیوں میں تو میڈیکل اسٹور والوں نے لوٹ مچا دی ہے کہ دوائی نہ ہونے کا کہہ کر توڑ جوڑ کر کے تین سے پانچ گنا قیمت اضافی وصول کررہے ہیں۔ شہری جعلی اور مہنگی دوائیاں خریدنے پر مجبور ہیں کہ شہر میں بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومتیں اس مسئلہ کا حل نکالیں۔ مارکیٹوں سے کروڑوں گولیاں برآمد ہورہی ہیں۔ لیکن شہری قلت کا شکار ہیں۔