علی زر اعظمی:
بھارتی مسلمانوں کی مقبول تنظیم پاپولر فرنٹ کیخلاف آپریشن میں مزید شدت آگئی۔ گیارہ ریاستوں کے سولہ شہروں میں کریک ڈائون اور گرفتاریاں جاری ہیں۔ پاپولر فرنٹ کے رہنمائوںسمیت سینکڑوں کارکنوں اور حامیوں کو گرفتار کرکے راجدھانی دہلی کے حراستی مراکزاور جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔ جبکہ ’’لائیو منٹ‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاپولر فرنٹ کے پانچ سو کارکنان کو صرف کیرالا میں گرفتار کرکے مقامی جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔
پاپولر فرنٹ نے گرفتار شدہ کارکنان پر تشدد کی تصدیق کی اور کہا ہے کہ سینکڑوں گرفتار شدگان سے لواحقین اور وکلا کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی۔ پی ایف آئی کے سینکڑوں کارکنوں نے چھاپوں اور گرفتاریوں کیخلاف چنائے، بنگلور اور میسور سمیت دیگر مقامات پر شدیداحتجاج کیا۔ پی ایف آئی نے بیان میں گرفتاریوں کی مذمت کی اور کہا کہ ہم پاپولر فرنٹ کی اختلافی و نظریاتی آواز کو دبانے کیلیے مودی سرکار اور ایجنسیوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی فرمائش پر مسلم تنظیم کیخلاف کریک ڈائون کا مقصد تنظیم کو غیر قانونی قرار دیکر پابندی عائد کرنا ہے۔ تاکہ ہندوستان میں مستقبل میں حجاب، نماز اور دیگر معاملات پر کوئی احتجاجی آواز نہ اٹھا سکے۔
ادھر مہاراشٹر کے شہر پونے میں پاپولر فرنٹ کے مظاہرے میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے کا الزام عائد کرکے مزید دس نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان کیخلاف بغاوت کا مقدمہ درج کروا دیا گیا ہے۔ ادھر ریاست کیرالا میں سینئر مسلم رہنمائوں کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل حجاب تنازع پر پاپولر فرنٹ کے احتجاج اور مسلم خواتین کے دفاع پربی جے پی اور آر ایس ایس نے اس کیخلاف کارروائی کا عندیہ دیا تھا جس پراب عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ سات بھارتی ریاستوں میں جاری کریک ڈائون کو آپریشن آکٹوپس کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں انٹیلی جنس بیورو، ریسرچ انٹیلی جنس ونگ، ڈی آئی بی، اسپیشل برانچ، نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی، انفورس منٹ ڈائریکٹوریٹس آف انڈیا اور پولیس شامل ہیں۔ اس آپریشن میں دس ہزار اہلکاروں کو تامل ناڈو، کیرالا، دہلی، ممبئی، اتر پردیش، مدھیا پردیش، کرناٹک، آندھرا پردیش، آسام، راجستھان اور پانڈیچری میں سینکڑوں مسلم گھرانوں پر چھاپوں اور گرفتاریوںمیں استعمال کیا گیا اور مسلم خواتین اور چادرو چہار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ آپریشن آکٹوپس کی نگرانی سابق صدر بی جے پی اور حالیہ وزیر داخلہ امیت شاہ کررہے ہیں۔ جن کے ٹیکنیکل معاون سابق انٹیلی جنس افسر اور قومی سلامتی ڈائریکٹر اجیت دووال‘ بھی متحرک ہیں۔ دووال دہلی، مہاراشٹر، کیرالا، کرناٹک، راجستھان سمیت اتر پردیش میں بنائے جانے والے چھ حساس کنٹرول رومز سے مسلسل اپڈیٹس حاصل کرکے وزیر داخلہ امیت شاہ سے رابطہ میں ہیں۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کیخلاف کریک ڈائون، گرفتاریوں اور تشدد پر مسلم تنظیمیں، علما و زعما سمیت مسلم کمیونٹی اور لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ ہندو اکثریتی میڈیا پر شائع و نشر کی جانے والی چارج شیٹ میں بھارتی ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پاپولر فرنٹ بھارت میں دہشت گردی، منی لانڈرنگ، قاتلانہ کارروائیوں، سازش اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ لیکن تنظیم کی اعلیٰ قیادت کا کہنا ہے کہ تنظیم کسی بھی قسم کی مجرمانہ یا سازشی سرگرمیوں میں ملوث نہیں۔ جبکہ ان کی تنظیم کو کرناٹک میں حجاب تنازع پر مسلم خواتین کا موقف اُجاگر کرنے پر ہدف بنایا جارہا ہے۔
انفورس منٹ ڈائریکٹویٹس کا دعویٰ ہے کہ پاپولر فرنٹ کے اکائونٹس میں 120 کروڑ روپے پائے گئے۔ جو اس کو غیر ملکی اور ملکی افراد اور تنظیموں کی فنڈنگ کی شکل میں جمع کروائے گئے تھے۔ لیکن پاپولر فرنٹ نے اس الزام کو لغو قرار دیا اور کہا ہے کہ لاکھوں کارکنان اورحامیوں کی جائز فنڈنگز کی شکل میں تنظیم کو یہ رقم گزشتہ کئی برس میں عطیہ کی گئی ہے اور منی لانڈنگ کا الزام غلط ہے۔
بنگلورو نیوز نے بتایا ہے کہ چند ماہ قبل ریاستی و مرکزی حکومت کو انٹیلی جنس ان پٹ رپورٹ میں کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب تنازع کیلئے پاپولر فرنٹ کو ذمہ دار ٹھیرایاگیا تھا۔ جس پر دنیا بھر میں بھارت کی رسوائی ہوئی تھی اور بالخصوص خلیجی ریاستوں میں بھارت کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دہلی میں موجود صحافی دنیش روئے نے بھی لکھا ہے کہ ایک ماہ قبل ہی وزارت داخلہ نئی دہلی نے ایک خفیہ مراسلہ میں تین انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خبردار کیا تھا کہ ’پاپولر فرنٹ‘ کو خلیجی ممالک قطر، امارات، کویت، سعودی عرب سمیت عمان جیسے ممالک سے منظم نیٹ ورکس کی مدد سے بھاری فنڈنگز ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ پاپولر فرنٹ کا سیاسی پلیٹ فارم سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا یا ایس ڈی پی آئی ہے۔ جس کی انتخابی عمل میں پی ایف آئی حمایت کرتی ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں پاپولر فرنٹ جیسی اختلافی آوازوں کو دبانا جمہوری اصولوں کے منافی طرز عمل ہے۔ پاپولر فرنٹ کبھی بھی دہشت گردی یا منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں رہی۔ بھارتی کی چار جنوبی ریاستوں میں پاپولر فرنٹ نوجوانوں میں بیحد مقبول ہے اور اس کے جلسوں میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر رحمانی نے الزام عائد کیا کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی سرکار کی حالیہ کارروائی اس پر پابندی کیلئے ہے۔ ٹیلیگراف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ماضی میں بھارتی ریاستی و مرکزی حکومتیں پی ایف آئی پر منی لانڈرنگز اور ٹیرر فنڈنگز کا الزام لگاچکی ہیں۔ لیکن عدالتی فورمز پر یہ الزامات کبھی بھی ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ 2018ء ہی میں جھاڑ کھنڈ کی بی جے پی ریاستی سرکارنے پی ایف آئی پر منی لانڈرنگز کا الزام لگا کر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن چند سماعتوں میں ہائی کورٹ نے پاپولر فرنٹ کو کلیرنس دیدی تھی۔ پی ایف آئی کے جنرل سیکریٹری انیس احمد بھی تنظیم پر بھارت سرکار کے الزامات کو بے بنیاد قرار د ے چکے ہیں۔ انیس احمد نے واضح کیا کہ دہشت گردی یا منی لانڈرنگ کسی بھی معاملہ میں پی ایف آئی پر الزام ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ پی ایف آئی غیر قانونی سرگرمیوں کے ہمیشہ سے خلاف ہے۔ اس کا قصور یہی ہے کہ اس نے ملک کی دستور مخالف طاقتوں کیخلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ آر ایس ایس اور اس کی ہم نوا تنظیمیں۔ یاد رہے کہ اس وقت پاپولر فرنٹ کیرالا اور کرناٹک میں مضبوط ہے۔ لیکن اس کی موجودگی بھارت کی بیس ریاستوں کے پچاس سے زیادہ شہروں میں ہے اور تنظیم کے رجسٹرڈ کارکنان کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔