نمائندہ امت:
کراچی میں دودھ کا بحران شدت اختیار کرنے لگا۔ دودھ کی قلت کے باعث قیمتیں بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ فی لیٹر دودھ کا نرخ 190 روپے تک جا پہنچاہے۔ جبکہ مزید ریٹ اوپر جانے کا خدشہ ہے۔ دودھ فروشوں اور گاہکوں کے درمیان جھگڑے معمول بن گئے ہیں۔ ڈیری اینڈ کیٹل فارمر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت 6 ماہ کے لئے مڈل ایسٹ بھجوانے والی مکئی، چوکر، بنولہ، بھوسہ اور دیگر اجناس بند کرے۔ ورنہ چارے کے بعد ان اشیا کی قلت لائیو اسٹاکس کے شعبے کو نقصان پہنچاتی رہے گی۔ لمپی اسکن ڈیزیز کے بعد سیلاب کے دوران 15 لاکھ سے زائد جانور مر چکے ہیں۔ سیلاب متاثرین کے ساتھ بچے کھچے جانوروں کو بعض این جی اوز چارہ اور دیگر کھانے کی اشیا فراہم کر رہی ہیں۔ لائیو اسٹاکس کا یہ نقصان قیمتیں بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔
واضح رہے کہ سیلابی صورتحال میں مویشیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے بعد کراچی میں دودھ کی جہاں قلت بڑھتی جارہی ہے۔ وہیں بڑے اور چھوٹے جانور کے گوشت کے ریٹ بھی اوپر جارہے ہیں۔ سندھ اور وفاقی حکومت ایک ماہ گزرنے کے باوجود اسٹیک ہولڈر یا ایسوسی ایشن والوں سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ بعض فلاحی ادارے جہاں سیلاب متاثرین کو امداد فراہم کر رہے ہیں۔ وہیں بچے کھچے جانوروں کو چارہ دوائیاں دے رہے ہیں کیونکہ سیلاب میں جانوروں کی بڑی تعداد مرگئی ہے۔ جبکہ بچنے والے جانور بیماریوں میں مبتلا ہیں اور چارہ بھوسہ و دانہ نہ ہونے پر فاقوں کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ کراچی میں یومیہ 23 سو دودھ دینے والے جانور لائے جاتے تھے۔ جن میں 20 فیصد گائیں اور80 فیصد بھینسیں ہوتی تھیں۔ مال زیادہ تر اپر سندھ اور پنجاب سے آتا تھا۔ جہاں سیلاب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی راستے 40/45 فیصد کھلے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کراچی آنے والا جانور کم ہو رہا ہے اور کراچی میں موجود دودھ والی گائیں بھینسیں یومیہ 3 ہزار تک کم ہوتی جارہی ہیں کہ دودھ کے پیریڈ کے خاتمے پر انہیں ذبح ہونے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب بھوسہ زیادہ تر سندھ کے اندر اسٹاک کیا جاتا ہے۔ میرپور خاص، سانگھڑ، بدین، خیرپور اور اطراف کے شہروں میں سیلاب نے بھوسے کا اسٹاک ختم کر دیا ہے۔ جبکہ ٹنڈوآدم اور پنجاب میں بھوسے کی مشینیں لگی ہیں۔ تاہم وہاں پیکنگ کرکے مڈل ایسٹ بھاری قیمتوں میں بھجوایا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے بھوسے کی شدید قلت ہو رہی ہے۔ جو جانوروں کی خوراک کا اہم جزو ہے۔ بھوسے کی سیلاب کے بعد قیمتیں 2 سے 3 گنا بڑھادی گئی ہیں۔ ہر چارے میں چوکر زیادہ اہم ہے۔ جو اس وقت 700 سے 1100 روپے من مل رہا ہے۔ بنولہ بھی ایکسپورٹ ہو رہا ہے۔ کراچی میں مکئی، باجرہ، جنتر اور دیگر ہرا چارہ ملیر ندی، میمن گوٹھ، کاٹھور، گڈاپ، ٹھٹھہ اور گھارو کی ساحلی پٹی سے آرہا ہے اور ان کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہیں۔ اس طرح دودھ روزانہ کراچی میں 50 لاکھ لیٹر سپلائی ہوتا تھا۔جو اب 35/40 لاکھ لیٹر تک آچکا ہے۔ اس قلت کی وجہ سے ریٹ بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت لائیو اسٹاکس کے شعبے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔
کراچی ڈیری اینڈ کیٹل فارمر ایسوسی ایشن کے صدر شاکر گجر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حکومتی سطح پر لائیو اسٹاکس کو ہونے والے بھاری نقصان کے ازالے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ کراچی میں دودھ والے اور گوشت والے جانور کم آرہے ہیں اور ان کی کمی لاکھوں میں جا چکی ہے۔ جو موجود ہیں وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ وہ بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ جانوروں کی بیماریوں کو ختم کرنے والی دوائیاں بالخصوص ویکسین مفت فراہم کی جائیں اور مڈل ایسٹ بھجوانے والا چوکر، بھوسہ، بنولہ مل، مکئی، گندم کا چھلکا اور دیگر اشیا کیلئے 6 ماہ کی پابندی عائد کی جائے۔ تاکہ ملک میں چارے کی کمی کے بعد ان اشیا کی کمی پر قابو پایا جا سکے۔ قلت کے سبب ان اشیا کی قیمتیں آسمان پر جاپہنچی ہیں۔
ایک سوال پر شاکرگجر کا کہنا تھا کہ پنجاب اور سندھ کے راستے کچھ نہ کچھ کھل رہے ہیں تو اب بھتہ خوری عروج پر جا پہنچی ہے۔ لمبی لمبی قطاروں میں کئی گھنٹے پھنسے ٹرکوں ٹرالرز پر موجود جانور مر رہے ہیں اور سرکاری ادارے پولیس اور دیگر جانور کی گاڑیوں سے بھتہ مانگ رہے ہیں۔ پنو عاقل کے قریب ایکسائز والوں نے چیک پوسٹ پر فی ٹرک 500 روپے سے رقم بڑھاکر 2000 روپے ٹرک کردیا ہے کہ مہنگائی ہے۔ اب کراچی تک بھتے اتنے ہوں گے تو دودھ مہنگا ہی ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ فی لیٹر دودھ 190 روپے تک میں فروخت ہورہا ہے۔ اسی طرح خراب صورتحال رہی تو مزید قیمت بڑھے گی۔ وفاق اور سندھ کی حکومتیں لائیو اسٹاکس کے شعبے کو سپورٹ کریں۔