ارشاد کھوکھر
صوبائی محکمہ خوراک کی انتظامیہ اور فلور ملز مالکان کے درمیان باہمی مشاورت سے سستے آٹے کی تقسیم کا طے کردہ فارمولا غریب عوام سے مذاق بن گیا۔ سستے آٹے کی مد میں دی جانے والی تقریباً 24 ارب 58 کروڑ روپے کی سبسڈی میں سے لگ بھگ 22 ارب روپے پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا، فلور ملز مالکان کے علاوہ مخصوص دکانداروں کو بھی ملے گا۔ دوسری جانب محکمہ خوراک نے 21 ستمبر سے سرکاری گندم جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس کے برعکس گندم کا اجرا 5 دن تاخیر پیر 26 ستمبر سے شروع کیا گیا ہے۔ واقفان حال کے مطابق اس تاخیر کے پیچھے بھی بھاری رشوت کے عوض، چور اور نادہندہ فلور ملوں کو سرکاری گندم کے کوٹہ سے نوازنے کی راہ ہموار کرنا تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کراچی کے عوام کے لئے سستا آٹا محض پونے تین سو دکانوں پر صرف 10 فیصد تک دستیاب ہوگا۔ اس طرح کراچی کی آبادی کے لحاظ سے فی دکان پر اوسطاً 91 ہزار لوگوں کے لئے آٹا دستیاب ہوگا۔ جاری کردہ گندم کے حساب سے ایک ہفتے میں ہر دکان پر محض 57 ہزار کلو یعنی فی دس کلو گرام کے 5 ہزار 700 تھیلے دستیاب ہونے چاہئیں۔ لیکن تقسیم کے فارمولے کے نتیجے میں مٹھی بھر غریب عوام بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ کیونکہ غریب عوام کو بظاہر سستے ریٹ پر یہ آٹا فراہم کرنے کے لئے دکانداروں پر کوئی چیک نہیں رکھا گیا ہے۔ پچھلے سال اسی طرح کے تقسیم کے فارمولے کے باوجود دکانداروں نے یہ آٹا من مانی قیمت پر فروخت کیا تھا۔ جب تک آٹے کے نرخ دو کے بجائے ایک نہیں ہوں گے۔ تب تک عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق سندھ کے محکمہ خوراک نے صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں رواں سیزن کے دوران 21 ستمبر سے فلور ملوں کو رعایتی نرخوں پر فی سو کلو گرام گندم کی بوری 5 ہزار 825 روپے کے حساب سے جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں صوبے بھر کی فلور ملوں کے لئے 21 ستمبر سے 30 ستمبر تک 5 لاکھ 60 ہزار بوری گندم مختص کی گئیں۔ لیکن مذکورہ گندم کوٹہ کے اجرا میں پانچ دن کی تاخیر کی گئی۔ جس کے باعث فلور ملوں کو گزشتہ روز گندم اجرا کے چالان ملے ہیں۔ جس کے بعد فلور مل مالکان نے گزشتہ روز سرکاری گندم کے چالان کی رقم بینک میں سرکاری اکائونٹ میں جمع کرائی ہے۔ اس طرح فلور ملوں کو آج سے گوداموں سے سرکاری گندم کا اجرا شروع کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری گندم کے اجرا میں پانچ دن کی تاخیر کے پیچھے رشوت خوری کے عوض غیر فعال اور چور فلور ملوں کو بھی نوازنے کی پالیسی کارفرما تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ نے مئی میں رمضان المبارک کے مہینے میں فلور ملوں کو رمضان پیکیج کے تحت انتہائی رعایتی نرخوں پر گندم جاری کی تھی۔ تاکہ عوام کو فی کلوگرام 40 روپے کے حساب سے آٹا فراہم ہو۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ جن فلور ملوں کو رمضان پیکیج کی گندم دی گئی تھی۔ ان میں سے صوبے بھر کی تقریباً 21 فلور ملیں ایسی تھیں۔ جنہوں نے اس میں بھی فراڈ کیا۔ اور انہوں نے ملنے والی سرکاری گندم کے مقابلے میں آٹا کم سپلائی کیا تھا۔ اس کے علاوہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں ایسی فلور ملیں بھی ہیں۔ جنہوں نے یوٹیلٹی اسٹورز کی گندم کی پسائی کی ہے۔ محکمہ خوراک کی پالیسی کے مطابق کسی اور ادارے کی گندم کی پسائی کرنے والی فلور ملوں کو محکمہ خوراک کی گندم جاری نہیں ہوتی۔ کیونکہ دیگر اداروں کی گندم کی پسائی کرنے سے ان کے بجلی کے یونٹ جو صرف ہوتے ہیں۔ اس سے محکمہ خوراک کی انتظامیہ کو اس بات کا اندازہ لگانے میں مشکل ہوتی ہے کہ وہ فلور ملیں فعال رہی ہیں یا غیر فعال۔
ذرائع نے بتایا کہ جب 21 ستمبر کو سرکاری گندم کے کوٹہ کے اجرا کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تو رمضان پیکیج کی گندم میں فراڈ کرنے والی دوہرے کاروبار میں ملوث چالیس سے زائد فلور ملوں کے سرکاری گندم کا کوٹہ دیا گیا۔ جس کے بعد ان فلور ملوں کے مالکان اور محکمہ خوراک کی مافیا کے سرغنہ گریڈ 15 کا ایک ملازم کے درمیان رابطے شروع ہوگئے۔ کیونکہ وہ فلور ملیں جنہوں نے یوٹیلٹی اسٹورز کی گندم کی پسائی کی تھی، ان سے فی مل 25 لاکھ روپے رشوت کے عوض معاملہ طے کرکے ان میں سے بیشتر ملوں کو سرکاری گندم کے کوٹے کے لئے کلیئر کیا گیا ہے۔ جبکہ اسی فارمولے کے تحت رمضان پیکیج کی گندم میں فراڈ کرنے والی کئی فلور ملوں کو بھی کلیئر کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ فلور ملوں سے کروڑوں روپے رشوت بٹورنے کے ماسٹر مائنڈ محکمہ خوراک کے دوسرے بڑے افسر تھے۔ جو سمجھتے تھے کہ ان فلور ملوں سے رشوت بٹورنے کا یہی اچھا موقع ہے۔ جو اپنی حکمت عملی میں تقریباً کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرکاری گندم کے اجرا میں پانچ دن کی تاخیر کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ اس مرتبہ فلور ملوں کو یہ بھی رعایت دی گئی ہے کہ انہیں جو سرکاری گندم دی جائے گی۔ اس میں سے 10 فیصد کے بجائے 20 فیصد چوکر اور 10 فیصد میدہ نکال کر باقی 70 فیصد گندم سے بننے والا آٹا سرکاری نرخوں پر سپلائی کریں۔ یعنی فی سوکلوگرام گندم کی بوری سے فی 10 کلوگرام آٹے کے سات تھیلے سپلائی کریں۔ اس حساب سے محکمہ خوراک نے 30 ستمبر تک کے کوٹے کے مد میں جو 5 لاکھ 60 ہزار بوری گندم جاری کی ہے۔ اس حساب سے صوبہ بھر میں آٹے کے 39 لاکھ 20 ہزار تھیلے سپلائی ہونے چاہئیں۔ جن میں سے صرف کراچی ریجن کے لئے 2 لاکھ 24 ہزار بوری گندم مختص کی گئی ہے۔ جس سے تقریباً 15 لاکھ 68 ہزار فی دس کلوگرام آٹے کے تھیلے غریب عوام کو ملنے چاہئیں۔ لیکن کہانی اس کے برعکس ہے۔ سرکاری نرخوں والے آٹے کی سپلائی کی محمکہ خوراک کی انتظامیہ اور فلور ملز مالکان میں باہمی مشاورت سے جو پالیسی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کے تحت ہر فلور مل شہر کی صرف تین دکانوں پر مذکورہ آٹا سپلائی کریں گی۔ کراچی کی تقریباً 52 فلور ملوں کو سرکاری گندم جاری کی جارہی ہے۔ اس حساب سے ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں اوسطاً 91 ہزار سے زائد آبادی کے لئے صرف ایک دکان ایسی ہوگی۔ جہاں پر یہ رعایتی نرخوں والا آٹا نظر آئے گا۔ کراچی کی فلور ملوں کے لئے 30 ستمبر تک کے کوٹے کی مد میں جو گندم جاری کی گئی ہے۔ اس حساب سے فی دکان پر 57 ہزار کلوگرام یعنی فی 10کلو گرام آٹے کے 5 ہزار 700 تھیلے دستیاب ہونے چاہئیں۔ تاہم محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا اور فلور ملز مالکان کے درمیان یہ بات طے ہوئی ہے کہ ان دکانوں پر اصل مقدار کے مقابلے میں 10 سے 15 فیصد آٹا سپلائی کیا جائے گا۔ باقی سرکاری گندم مل مالکان کی منافع خوری اور محکمہ خوراک کے حکام کی کمیشن کی نذر ہوگی۔ اس طرح یہ آٹا مٹھی بھر غریب عوام کو بھی نہیں مل سکے گا۔
جہاں تک مخصوص و محدود دکانوں پر یہ آٹا سپلائی کرنے کی بات ہے تو یہ کوئی پہلا موقع نہیں۔ گزشتہ سال بھی یہ پالیسی اپنائی گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ وہی دکاندار جنہیں پہلے ہی کم مقدار میں آٹا سپلائی ہوتا تھا۔ اس میں سے بھی بیشتر سستے آٹے کے تھیلے کھول کر بڑی بوریوں میں ڈال کر وہی آٹا اوپن مارکیٹ کے حساب سے فروخت کرتے تھے۔ اس مرتبہ حکومت سندھ نے فی کلوگرام سرکاری آٹے کے ایکس مل ریٹ 64 روپے کے حساب سے فی دس کلوگرام تھیلے کے نرخ 640 روپے مقرر کئے ہیں۔ اور ریٹیل میں مذکورہ آٹے کے تھیلے پر بھی یہ رقم 650 روپے مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ اوپن مارکیٹ میں دکاندار وہی آٹا فی کلوگرام 110 سے 115 روپے تک فروخت کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان دکانداروں پر بھی چیک رکھنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ بلکہ اکثر یہ دیکھا گیا کہ محکمہ خوراک کا عملہ ان دکانداروں کے پاس پہنچ کر ان سے بھی اپنا کمیشن کا حصہ وصول کرتا رہا ہے۔ اس طرح سرکاری آٹے کی مد میں جو کرپشن ہوگی۔ اس میں متعلقہ دکانداروں کو بھی ہاتھ صاف کرنے کا بھرپور موقع ملے گا۔
حکومت سندھ، فلور مل مالکان کو 5 ہزار 825 روپے میں فی سوکلو گرام سرکاری گندم جاری کر رہی ہے۔ ان میں سے دیسی گندم کی فی سو کلو گرام بوری محکمہ خوراک کو 7 ہزار 825 روپے سے زائد رقم میں پڑی ہے۔ اور محکمہ خوراک کی انتظامیہ رواں سیزن کے دوران آٹے کی طلب پوری کرنے کے لئے وفاقی حکومت سے جو درآمدی گندم لے گی۔ وہ فی سوکلوگرام کی بوری سندھ حکومت کو 9 ہزار روپے میں ملے گی۔ اس طرح 9 لاکھ ٹن دیسی اور 2 لاکھ ٹن درآمدی گندم کو ملاکر حکومت سندھ کو مذکورہ فی بوری گندم تقریباً 8 ہزار روپے میں پڑ رہی ہے۔ اس طرح فی بوری گندم پر صوبائی حکومت 2 ہزار 175 روپے کی سبسڈی برداشت کر رہی ہے۔ 11 لاکھ ٹن گندم پر جو تقریباً 24 ارب 58 کروڑ روپے کی سبسڈی برداشت کی جائے گی۔ اس کا فائدہ غریب عوام کے بجائے محکمہ خوراک کی کمیشن مافیا، فلور ملز مالکان اور متعلقہ دکانداروں وغیرہ کو بھی پہنچے گا۔ وہ دس فیصد عوام خوش قسمت ہوں گے جنہیں سرکاری نرخوں پر آٹا میسر ہوسکے گا۔ اس طرح گندم پر دی جانے والی 24 ارب 58 کروڑ روپے کی سبسڈی میں سے تقریباً 22 ارب روپے مافیاز کی نذر ہوجائیں گے۔