ندیم محمود:
نون لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف نے ایک بار پھر پاکستان واپسی کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ لندن میں شریف خاندان سے قریب ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سابق وزیراعظم کی واپسی کا پروگرام ترتیب دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ابتدائی پلان اسحاق ڈار کی لندن میں موجودگی کے موقع پر ہی ترتیب دے دیا گیا تھا۔ اگر کوئی انہونی نہیں ہوئی تو نواز شریف نومبر کے آخر یا دسمبر میں پاکستان پہنچ جائیں گے۔
اس سے قبل بھی نواز شریف تین بار واپسی کے لیے سامان پیک کرچکے تھے۔ لیکن عین موقع پر پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ ایک بار انہوں نے ٹکٹ بھی خرید لیا تھا۔ لیکن پاکستان میں ہونے والے سیاسی اتار چڑھائو کے سبب تینوں بار ان کی واپسی کے پلان موخر کرنا پڑے۔ تاہم ذرائع کے بقول اب چوتھی بار نواز شریف نے پاکستان واپس آنے کی تمام تیاریاں پھر مکمل کرلی ہیں۔ خاص طور پر مریم نواز کی بریت کے بعد نواز شریف کی واپسی کے پلان کو آخری شکل دینے میں مدد ملے گی۔ دو مختلف ریفرنسز میں نواز شریف کو مجموعی طور پر سترہ برس قید کی جن سزائوں کا سامنا ہے۔ ان سزائوں کے خاتمے کے لئے بھی قانونی ٹیم نے تیاری کر رکھی ہے۔ اس کے لئے عدالت اور آرڈیننس دونوں میں سے کوئی ایک آپشن اختیار کیا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو سنائی جانے والی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ نیب اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ بریت کا یہ فیصلہ دو ہزار اٹھارہ میں مریم نواز کی جانب سے سزا کے خلاف دائر درخواست پر سنایا گیا۔ اس کیس میں انہیں سات سال قید اور بیس لاکھ پائونڈ کا جرمانہ اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی بریت کے بعد قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب کا یہ کیس (ایون فیلڈ ریفرنس) اتنا کمزور ہے کہ اب اس کیس میں نواز شریف کی بریت بھی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ یاد رہے کہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی دس سال قید اور اسّی لاکھ پائونڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اور انہیں بھی انتخابی سیاست کے لئے نااہل قرار دیدیا گیا تھا۔ یہ سزائیں جولائی دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے محض ڈھائی ہفتے قبل یعنی چھ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو سنائی گئی تھیں۔ اس کے نتیجے میں دونوں باپ بیٹی (نواز شریف اور مریم نواز) نااہل ہونے کے سبب الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ اس کا واضح اثر نون لیگ کے انتخابی نتائج پر پڑا تھا۔
لندن میں شریف برادران سے قریب ذرائع کا کہنا ہے کہ احتساب عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی سزائیں بھی نواز شریف کی واپسی میں بظاہر بڑی رکاوٹ ہیں۔ تاہم اس سے بھی بڑی رکاوٹ ’’بادشاہ گروں‘‘ کی جانب سے ’’گرین سگنل‘‘ کا نہ ملنا تھا۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب یہ گرین سگنل مل چکا ہے۔ اسی گرین سگنل کے نتیجے میں اسحاق ڈار کی واپسی ہوئی ہے۔ جبکہ سزائوں کے حوالے سے نواز شریف کی قانونی ٹیم نے انہیں باور کرایا ہے کہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزائیں کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد ایون فیلڈ کیس میں ان کی بریت کا راستہ بھی ہموار ہوچکا ہے۔ کیونکہ نیب کے لئے اس کیس کا دفاع کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ پھر یہ کہ اب ماضی والا نیب بھی نہیں رہا ہے۔ جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں سنائی جانے والی سزا کے خاتمے کے حوالے سے بھی نون لیگ کی قانونی ٹیم خاصی پُرامید ہے اور اسے یقین ہے کہ کمزور بنیادوں پر اس ریفرنس میں سابق وزیراعظم کو سنائی جانے والی سات برس قید کی سزا بھی کالعدم قرار دے دی جائے گی۔
لندن میں نواز شریف اور اسحاق ڈار سے قریب ایک پارٹی عہدیدار کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’’اگر پنجاب حکومت نون لیگ کے ہاتھ سے نہیں نکلتی تو اسحاق ڈار کی واپسی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ہی ہوجانی تھی۔ اس کے فوری بعد نواز شریف کی پاکستان واپسی کا پروگرام تھا۔ تاہم پنجاب میں سیاسی تبدیلی کے سبب سارا پروگرام دھرا رہ گیا تھا‘‘۔ اس عہدیدار کے بقول نومبر یا زیادہ سے زیادہ دسمبر میں نواز شریف کی واپسی کی تیاریاں مکمل ہیں۔ اس سلسلے میں ابتدائی پلان ترتیب دیا جاچکا ہے۔ حتمی پلان حالات کو دیکھ کر تشکیل دیا جائے گا۔ بظاہر اس بار کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاست کے بارے میں چونکہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس تناظر میں اگر کوئی انہونی ہوجاتی ہے، تب ہی نواز شریف کی واپسی سے متعلق چوتھا پلان متاثر ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ پنجاب میں سیاسی تبدیلی کے سبب عین موقع پر اسحاق ڈار کی واپسی رک گئی تھی۔ میاں صاحب، واپسی کے لئے نہ صرف ذہنی طور پر تیار ہیں۔ بلکہ انہوں نے سامان بھی پیک کر رکھا ہے۔ نون لیگی عہدیدار کے مطابق چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ یہ طے ہے کہ نواز شریف عام انتخابات سے قبل پاکستان میں ہوں گے۔ کیونکہ ان کے بغیر آئندہ جنرل الیکشن میں اترنا نون لیگ کے لئے سیاسی موت ثابت ہوسکتی ہے۔ نون لیگی قیادت کا اس پر اتفاق ہے کہ عام انتخابات میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لئے نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر انتخابی نتائج مختلف ہوسکتے ہیں۔ پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ خاص طور پر عمران خان کے بیانیہ کو شکست دینے، ووٹرز و سپورٹرز کو متحرک کرنے اور انتخابی حکمت عملی طے کرنے کے لئے نواز شریف کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اصل ووٹ بینک نواز شریف کا ہے اور وہ اپنے ووٹرز و سپورٹرز کو باہر نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ علاج کی غرض سے لندن روانہ ہونے سے پہلے نواز شریف جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔ یوں اسحاق ڈار کی واپسی کے مقابلے میں نواز شریف کا کیس مختلف ہے۔ اسحاق ڈار کو واپسی پر گرفتار کرنے سے عدالت نے روک دیا تھا۔ یوں انہیں ضمانت کرانے کی مہلت مل گئی تھی۔ اس کے برعکس نواز شریف کو واپسی پر گرفتاری دینی پڑسکتی ہے۔ کیونکہ وہ سزا یافتہ اور دوران قید، صحت کی بنیاد پر لندن روانہ ہوئے تھے۔
اس سلسلے میں لندن میں شریف برادران سے قریب ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سارے معاملات پر مشاورت کی جاچکی ہے۔ ایک آپشن یہ ہے کہ نواز شریف کی سزا اور نااہلی کے خاتمے کے لئے آرڈیننس کا اجرا کردیا جائے۔ یا کم از کم کوئی ایسا آرڈیننس لایا جائے۔ جس کے نتیجے میں انہیں کم از کم گرفتاری دینے کے بجائے آزاد رہ کر عدالت میں اپنے دونوں ریفرنسز کا دفاع کرنے کا موقع مل جائے۔ ذرائع کے بقول اگر یہ آپشن استعمال نہیں کیا جاسکا تو پھر دوسرے آپشن کے طور پر یہ بھی سوچا گیا ہے کہ وطن واپسی پر سابق وزیراعظم گرفتاری دے دیں گے۔ تاہم انہیں جیل بھیجنے کے بجائے وفاقی وزارت داخلہ ان کی ذاتی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے سکتی ہے۔ اس دوران وہ اپنے ریفرنسوں کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کریں گے۔ جس کے لیے ان کی قانونی ٹیم پُرامید ہے کہ کمزور بنیادوں پر دی جانے والی احتساب عدالتوں کی سزائیں ہائی کورٹ کالعدم قرار دیدے گا۔