احمد خلیل جازم:
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان کسان اتحاد کا دھرنا جاری ہے اور مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کسان اتحاد مصر ہے کہ وہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ دوسری جانب پولیس نے ریڈ زون کو سیل کر دیا ہے۔ جبکہ اسلام آباد پولیس کا یہ بیان بھی سامنے آچکا کہ وہ کسی صورت دارالحکومت کا امن و امان کسی کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ بدھ سے اعلان کردہ کسانوں کا احتجاج مہنگی بجلی، کھاد کی عدم دستیابی، سندھ، پنجاب، بلوچستان میں گندم کا سرکاری ریٹ یکساں نافذ کرنے اور ڈیزل ڈھائی سو روپے لٹر ملنے کے خلاف جاری ہے۔ لیکن ابھی تک حکومت پاکستان اور پنجاب حکومت کے ساتھ ان کے مسائل حل نہیں ہو پائے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان سے کسان اسلام آباد اپنے مطالبات کے حق کے لیے آ رہے ہیں۔ حکومت نے انہیں ایف نائن پارک میں دھرنا دینے کی پیش کش کی ہے۔ لیکن کسان اتحاد مصر ہے کہ وہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ہی دھرنا دیں گے۔
چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے مطالبات اور احتجاج کے حوالے سے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’کسانوں پر کاسٹ آف پروڈکشن بہت بڑھ چکا ہے۔ بجلی کا ایوریج ریٹ فی یونٹ 35 سے 36 روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہی ریٹ پہلے 5:35 روپے فی یونٹ تھا۔ اسی طرح ڈی اے پی جو پہلے تین ہزار روپے پر تھی۔ آج وہ مارکیٹ سے بمشکل 14700 روپے میں مل رہی ہے۔ ڈیزل ایک سو بیس روپے لٹر تھا۔ اب وہی ڈیزل دو سو پچاس روپے لٹر مل رہا ہے۔ اسی طرح کسانوں کے لیبر چارجز بڑھ گئے ہیں۔ جو زمین دار اپنی زمین پر مزدور کسان رکھتا تھا۔ ان کے گھر کے خرچے بڑھے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ان کی تنخواہیں بڑھانی پڑی ہیں۔ زرعی ادویات کا ریٹ بھی پہلے کے مقابلے میں تین گنا بڑھ چکا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارے تمام ان پٹس کے ریٹ تین چار گنا بڑھ چکے ہیں۔ اس تناظر میں کاشت کار کے لیے جو رزاعت کا کاروبار ہے۔ وہ منافع بخش ہے اور نہ ہی باعزت۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جب بجلی کا فی یونٹ ریٹ ساڑھے پانچ روپے کے لگ بھگ تھا۔ اس وقت ڈیزل ریٹ 130 روپے فی لٹر تھا۔ تقریباً سور وپے کا فرق آیا ہے، تو بجلی کا ریٹ اسی حساب سے کیا جانا چاہیے تھا۔ جوزیادہ سے زیادہ آٹھ روپے کر لیا جاتا۔ لیکن وہ 36 روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے۔
اصل میں جس بات سے کاشت کار کو تکلیف ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ پیسہ حکومت پاکستان کے پاس بھی نہیں جارہا۔ بلکہ یہ پیسہ ہم سے خون نچوڑ کر اکٹھا کر کے آئی پی پیز پاور پلانٹ والوں کو دے دیا جاتا ہے۔ ایک ہی پاکستان میں مختلف قوانین نہیں ہونے چاہئیں۔ قانون تو یہ ہے کہ جو ایک کے ساتھ سلوک ہو۔ وہی دوسرے کے ساتھ روا رکھا جائے۔ آئی پی پیز کو توآپ پے منٹ ڈالروں میں کرتے ہیں تو پھر کاشت کار کو بھی گندم، چاول، کپاس اور سبزیوں وغیرہ کی ادائیگی ڈالرز میں کریں۔ حکومت ان کی بلیک میلنگ میں کیوں آئی ہوئی ہے؟ کیا سودا کرنے والوں نے ان میں کمیشن یا حصے تو نہیں رکھے ہوئے؟ اب اگر آئی پی پیز کی پروڈکشن کم ہوتی ہے۔ بجلی کم لی جاتی ہے۔ چاہے ایک یونٹ نہ لی جائے۔ لیکن ان کی جو کپیسٹی ہے ان کو اس کے پے منٹ بہرصورت کرنی ہی ہے۔ یہ تو پوری قوم کو جونکیں لگائی گئی ہیں۔ جو ہمارا خون چوس رہی ہیں۔ پوری قوم کا چند لوگ ہی ہیں جو خون نچوڑ کر پی رہے ہیں۔ پھر ہمارے پاس لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے کاسٹ آف پروڈکشن میں۔ جبکہ انڈین کاشت کارکو یہی یوریا پاکستانی روپے میں کوئی سات سو روپے کا بنتا ہے جو ہمیں ستائیں سو کا پڑتا ہے۔
اسی طرح ڈی اے پی بھارتی کاشت کار کو تین ہزار میں، جبکہ ہمیں ساڑھے چودہ ہزار سے زائد میں ملتی ہے۔ وہاں گرین ڈیزل کے نام پر ڈیزل سبسڈی پر کاشت کارکو ملتا ہے۔ ہم پوری پے منٹ کر رہے ہیں۔ وہاں ریسریچ بہتر، مارکیٹنگ میکنزم بہتر، وہاں سب کچھ کسان کے لیے بہتر ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ایک کاشت کار کی کاسٹ دس روپے ہو اور میری کاسٹ اسی پر تیس روپے ہو تو میں مارکیٹ جاکر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سب سے بڑا ایشو یہی ہے کہ ہم مقابلہ نہیں کرسکتے، اور یہ ہمارے کسان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ایشو ہے۔ ہم نے جو رزاعت پر انویسٹمنٹ نہیں کی۔ اس وجہ سے 15 بلین ڈالر کے لگ بھگ زراعی اجناس امپورٹ کر رہے ہیں۔ یعنی ہم غیروں کو اس مد میں بلین ڈالرز دے رہے ہیں۔ اپنوں کو ریلیف نہیں دے رہے‘‘۔ اس سوال پر کہ حکومت نے کسانوں کی بجلی پر سبسڈی دینے کی بات تو کی ہے۔ ٹیوب ویلز پر بھی ریلیف دینے کی بات ہوئی ہے۔
اس کے جواب میں خالد حسین کا کہنا تھا ’’زراعت کے لیے اعلانات ہر حکومت کرتی ہے۔ لیکن کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اگر کچھ عمل درآمد ہوتا تو ہمیں کیا ضرورت تھی چیخنے چلانے کی؟ میں آپ کو وضاحت سے بتا دوں کہ کسان کے لیے آج بھی ایشو نہیں ہے۔ جو سو ایکڑ گندم کاشت کرتا ہے۔ وہ دس ایکڑ کرلے گا۔ وہ اپنے پرانے لائف اسٹائل پر آجائے گا۔ وہ لائف جب اس کے پاس ٹریکٹر، گاڑی، موبائل اور دیگر سہولیات نہیں تھیں۔ وہ دوبارہ اسی کو اپنا لے گا۔ لیکن صبح دوپہر شام خالص گھی اور خوراک کھائے گا۔ لیکن شہری آبادی کیا کرے گی۔ جن کے نام پر کاشت کار کو قربان کیا جاتا ہے۔ آج ہم زرعی ملک تو شوق سے کہلواتے ہیں۔ لیکن گندم، دالیں، کپاس اور یہاں تک کہ مختلف قسم کے بیج تک ہم باہر سے منگواتے ہیں۔ 2021ء میں بھی ہم نے احتجاج کیا تھا۔ پی ایم نے ہم سے میٹنگ کرنی تھی۔ جو آج تک نہیں ہوئی۔
شہباز شریف صاحب نے قطر دوحہ میں پریس کانفرنس میں کھڑے ہوکر اعلان کیا تھا کہ ہم نے ٹیوب ویلوں پر فیول چارجز بلوں سے منہا کر دئیے ہیں۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکے تو ہمارا تو اعتماد اس حکومت سے اٹھ جائے گا‘‘۔ اس سوال پر کہ حکومت نے اس حوالے سے آپ کے ساتھ رابطہ کیا ہے، تو خالد حسین نے کہا ’’رابطے توکیے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس بات ہمارے سامنے نہیں آرہی۔ میں بس یہی کہوں گا کہ پاکستان کو ڈیفنڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ آج اسمبلیوں میں کوئی عمران خان کو، زرداری کو، یا نواز شریف کو تو ڈیفنڈ کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کی بات کوئی نہیںکرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم بھکاری قوم کہلاتے ہیں۔ کاشت کار کو تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن وہ اپنی زمین کا ٹکڑا اٹھا کر کسی دوسرے ملک منتقل نہیںکرسکتا۔ ان سیاست دانوں کے تو کاروبار اور بچے باہر منتقل ہوچکے ہیں۔ ہم نے تو یہیں مرنا جینا ہے۔ ملک کے فیصلے کرنے والوں کا سب کچھ باہر۔ اور ہم اپنے ایمان کے ساتھ سب کچھ اسی مٹی کے ساتھ رکھ کر کھڑے ہیں۔ ان کا تو وہ حال ہے کہ جیسے میں ہوٹل بنائوں اور کھانا ساتھ والے ہوٹل سے کھائوں کہ میرے ہوٹل کا کھانا اچھا نہیں ہے۔ باقی رہا احتجاجی دھرنا تو احتجاج جاری ہے اور اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے کہ کب تک جاری رہے گا۔ یہ سب کچھ حکومت پر منحصر ہے‘‘۔
پاکستان کسان اتحاد میں ایک اور دھڑا بھی ہے جو چوہدری انور کے ساتھ ہے۔ جب’’ امت‘‘ نے ان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’’میں ابھی لاہور سے اسلام آباد آرہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ پورے ملک میں حکومت ہے کہاں؟ فیڈرل حکومت صرف اسلام آباد تک محدود ہے اور اس کے پاس پیسہ نہیں۔ ہر چیز مہنگی کر دی گئی ہے‘‘۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ مل کر جدوجہد کیوں نہیں کرتے؟ تو چوہدری انور نے کہا ’’اگر ہمیں مل کر چلنا پڑا تو کسانوں کے لیے ضرور چلیں گے۔ ہم دونوں کا ایک ہی مطالبہ ہے اور اسی پر احتجاج ہوگا۔ میں تو ابھی کسانوں کے ساتھ لے کر نکلا ہی نہیں ہوں۔ جب نکلوں گا تو دیکھیے گا کہ حکومت ہمارے مطالبات ٹیبل پر لاتی ہے کہ نہیں۔ اب چونکہ وہ بھی کسانوں کی بات کر رہے ہیں تو اس حوالے سے میں ان کے ساتھ ضرور تعاون کروں گا‘‘۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ ’’ احتجاج میں شامل افراد کو کسی بھی صورت میں ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ احتجاج میں شامل افراد کے پاس ڈنڈے اور دیگر ہتھیار ہو سکتے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ نے گزشتہ شب مذاکرات کی کوشش کی۔ مگر کسانوں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ احتجاج کے سرکردہ افراد نے ایف نائن میں احتجاج کی یقینی دہانی کروائی تھی۔ مظاہرین اب طے شدہ مقام کی بجائے ڈی چوک پیش قدمی کرنے پر بضد ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ حتی الامکان مذاکرات کرنے کی کوشش کرے گی۔ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ پولیس اور انتظامیہ آخری حل کے طور پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے اقدامات عمل میں لائے گی‘‘۔