پانچویں کلاس تک پہننےکوجوتا نہیں تھا۔عارف الحق عارف

سجاد عباسی

کشمیر کا جنت نظیر خطہ جہاں اپنے برفیلے پہاڑوں، فلک بوس چناروں اور سرسبز وادیوں کے مبہوت کن حسن کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ وہیں اس کے بہادر سپوت جذبہ حریت کے ہتھیار سے لیس مزاحمت اور لازوال قربانیوں کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ ڈوگرہ راج کے ظالمانہ دور میں مسلمان آبادی کے ساتھ غیر انسانی طرز عمل نے جہاں کشمیریوں کی زندگی کو جہنم میں تبدیل کرنے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ وہیں حریت اور آزادی فکر کے لئے ان کے جذبے اور تڑپ کو مہمیز بھی بخشی۔ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی کشمیر کا ہر نوجوان قریب قریب ایک ہی سانچے میں ڈھلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
جری اور بہادر لوگوں کی یہ سرزمین ایسے سپوتوں سے بھری پڑی ہے۔ جو اپنی محنت، لگن اور خود داری سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی جواں عزم اور باہمت کشمیری کی ہے۔ جس نے آج سے کم و بیش 82 برس قبل کوٹلی آزاد کشمیر کی وادی نباہ کے مشرق میں ایک فلک بوس پہاڑ ’’بڈیسر‘‘ کے دامن میں ’’مھل‘‘ نامی ایک پسماندہ اور دور افتادہ گائوں میں آنکھ کھولی۔ یہ پہاڑ اور گائوں اب مقبوضہ کشمیر کا حصہ اور لائن آف کنٹرول سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ غریب مگر مذہبی روایات کے پابند خاندان کے اس بچے کا نام محمد شریف رکھا گیا۔ (بعد میں ساتویں جماعت میں نام عارف رکھا گیا )یہ بچہ ابھی سات برس کا تھا کہ تقسیم ہند کے اعلان کے ساتھ ہی کشمیر سمیت پنجاب اور ہندوستان بھر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ قیام پاکستان کے بعد تو کشمیری مسلمانوں پر ریاستی حکومت کے مظالم اور بھی بڑھ گئے۔ ہندوستانی فوج نے ’’مھل‘‘ اور گرد و نواح کی آبادیوں پر دھاوا بول دیا اور مسلم اکثریتی دیہات پر بمباری بھی کی جانے لگی۔ جب زندگی تنگ ہوگئی تو درجنوں دیہات کے سینکڑوں مسلمان خاندان گھر بار چھوڑ چھاڑ کر ہجرت پر مجبور ہوگئے اور پہاڑی گھاٹیوں، دریائوں اور پتھریلے راستوں کو عبور کرتے ہوئے قریبی جنگلوں میں پناہ لی۔ ان خاندانوں میں ننھے عارف کا کنبہ بھی شامل تھا۔ جس نے اپنی زندگی کے اولین برسوں میں ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کو اپنے خون میں شامل کرلیا تھا۔ اکتوبر 1947ء میں اس خاندان نے بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر سفر ہجرت کی پہلی رات شدید سردی اور کسمپرسی کے عالم میں گھنے جنگل کے اندر بسر کی۔ سفر کی صعوبتوں کے ساتھ بھارتی فوج اور ایئر فورس کا بھی خوف دامن گیر تھا۔ جو مسلسل پیچھا کر رہے تھے۔ دو روز بعد سینکڑوں لٹے پٹے خاندان کھوئی رٹہ کے مقام پر پہنچے تو وہاں بھی ہندوستانی فوج نے گولے برسا دیئے۔ لٹے پٹے اور ستم رسیدہ قافلے نے پھر سفر کی ٹھانی اور جگہ جگہ پڑائو ڈالتے پہاڑ اور وادیاں عبور کر کے کوئی ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں میرپور پہنچے۔ یہاں چند روزہ قیام کے بعد مہاجرین کا یہ قافلہ کئی روزہ پیدل مسافت طے کر کے جہلم کے قریب چک جمال پہنچا۔ جہاں اقوام متحدہ کے تعاون سے مہاجر کیمپ قائم کئے گئے تھے۔ ننھے عارف نے اسی مہاجر کیمپ کے ایک اسکول میں 1951ء میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ ایک برس بعد 1952ء میں یہ خاندان ایک اور ہجرت کر کے آزاد کشمیر کے موجودہ ضلع کوٹلی کے شہر کھوئی رٹہ پہنچا اور نواحی گائوں ڈھیری صاحبزادیاں میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ چک جمال سے کھوئی رٹہ کا پیدل سفر بھی کوئی ڈیڑھ ماہ کا تھا۔ مگر مقامی باشندوں نے انصار مدینہ کی اخوت اور ایثار کی یادیں تازہ کر دیں اور مغل برادری سے تعلق رکھنے والا ننھے عارف کا یہ خاندان اپنے سارے دکھ بھول گیا۔

ہجرت کی صعوبتوں اور غربت و افلاس کے مصائب سے بھرا بچپن گزارنے والا عارف ذہین تو تھا ہی۔ مگر اس کے خواب بھی بڑے تھے۔ زندگی کے ابتدائی ایام نے ہی اسے زندہ رہنے کے مقصد سے آگاہ کر دیا تھا۔ چنانچہ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کرنے کے بعد وہ آنکھوں میں ڈھیر سارے خواب سجائے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی روانہ ہوا۔ جو تب وفاقی دارالحکومت بھی تھا۔ والد نے زاد راہ کے لئے کسی سے ادھار رقم لے کر دی۔ کیونکہ وہ بیٹے کی آنکھوں میں سجے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ خود تو ڈوگرہ راج کے دوران مسلمانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی پالیسی کے باعث اسکول نہ جا سکے۔ مگر ان کی خواہش تھی کہ بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے خاندان اور ملک کا نام روشن کرے۔
بس اور ٹرین کے ذریعے کئی روزہ سفر کے بعد کراچی پہنچنے والا یہ پہاڑی نوجوان زندگی کی دشوار گزار گھاٹیوں اور ناہموار پگڈنڈیوں پر عزم و ہمت کے ساتھ سفر کرتا رہا اور ایک سرکاری ادارے میں معمولی ملازمت کے ساتھ تعلیمی سفر بھی جاری رکھا۔ بعد میں اس نے اپنے کیریئر کے لئے صحافت کے شعبے کا انتخاب کیا۔ جہاں بہت کم مدت میں مٹی سے کندن بننے کی منازل طے کرتا ہوا وہ عارف الحق عارف بن گیا۔ جس نے جونیئر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا اور پھر نیوز ڈیسک اور رپورٹنگ سمیت ہر فیلڈ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

عارف الحق عارف ساٹھ کی دہائی میں ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے سے منسلک ہوئے اور کم و بیش 55 برس بعد آج بھی اسی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خدمات دوبارہ حاصل کرنا ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہی تھا۔ وہ گزشتہ دس برس سے امریکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کی اولاد نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ بلکہ سب اپنے اپنے شعبے میں بہترین پوزیشن پر ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ’’عارف فیملی‘‘ وہاں رہ کر بھی ان درخشندہ اسلامی اقدار اور مشرقی روایات سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے۔ جو ہمارے ہاں کے نام نہاد ماڈرن اور تعلیم یافتہ طبقے کے لئے قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
عارف الحق عارف 82 برس کی عمر میں نہ صرف قابل رشک صحت کے مالک ہیں۔ بلکہ جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی، کے اصول کے تحت ہر دن اور ہر لمحہ بھرپور انداز سے جیتے ہیں۔ شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں مسلسل کئی کئی گھنٹے کا سفر کرتے ہیں۔ کتابیں پڑھتے ہیں۔ اور اپنے سفر اور معمولات کی روداد باقاعدگی سے سوشل میڈیا کے ذریعہ احباب تک پہنچاتے ہیں۔ ہر دم فعال رہنے اور متحرک ذہن رکھنے والے عارف الحق عارف ساٹھ برس پرانے دوستوں اور ان کی اولادوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک تعلق بنانا ایک آرٹ ہے۔ اسے قائم رکھنا ایک کل وقتی، محنت اور دقت طلب کام ہے۔ وہ عملی صحافت میں پہلے کی طرف متحرک نہیں ہیں۔ بلکہ کئی برسوں سے پاکستان سے ایک طرح کی ہجرت کر کے امریکہ میں سکونت پذیر ہو چکے ہیں۔ مگر ان کے موبائل فون میں کوئی ساڑھے سات ہزار نمبر موجود ہیں اور فیس بک کے ہزاروں دوست اس کے علاوہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساڑھے سات ہزار محض نمبر نہیں۔ بلکہ افراد ہیں۔ جن سے وہ گاہے بگاہے رابطہ کرتے رہتے ہیں۔ ان میں صحافی، جج ، وکیل، سیاستدان، تاجر، ڈاکٹر، پولیس افسر، علمائے کرام سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں اور وہ سب عارف صاحب کو اپنے دل کے قریب محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ کسی سے اپنی کسی غرض کی خاطر رابطہ نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حلقہ اس کا وسیع ہوتا ہے۔ جس کا ظرف وسیع ہوتا ہے۔ ’’عموماً آپ کو اپنے مزاج کے لوگ نہیں ملتے۔ مگر یہی تو آرٹ ہے کہ ان سے بھی بناکر رکھیں جن سے آپ کی نہیں بنتی‘‘۔

عارف الحق عارف کا حافظہ کمال کا ہے۔ ساٹھ برس پہلے کے واقعات کو بھی پوری جزیاتی تفصیل کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے یا سننے والا خود کو اس زمانے اور منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ تحریر میں روانی اور شگفتگی لاجواب ہے۔ رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ مگر اس کی تشہیر سے گریز کرتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے اپنی ابتدائی زندگی کے کٹھن دنوں کو یاد کرتے ہیں اور ان حالات کو بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے عارف الحق عارف کی داستان حیات قارئین تک پہنچانے کے لئے ان سے بات کی تو وہ ماضی میں کھو سے گئے۔
ہم نے پوچھا گھر کے حالات کیسے تھے۔ اسکول کی تعلیم کن حالات میں حاصل کی؟ وہ خلا میں گھورتے ہوئے گویا ہوئے۔
’’قحط اور غربت کے وہ دن کیسے بھلائے جا سکتے ہیں۔ مجھے والد کا بے بس چہرہ اسی طرح نظر آتا ہے۔ جب ہم اسکول کی فیس طلب کرتے تو وہ نظریں چرانے لگتے۔ وہ شبانہ روز محنت کرکے کسی نہ کسی طرح روزمرہ اخراجات کا بندوبست تو کر ہی لیا کرتے تھے۔ لیکن فیس کا مسئلہ حل طلب ہی رہتا تھا۔ حالانکہ وہ فیس کلاس کے لحاظ سے ہوتی تھی۔ یعنی پہلی کلاس ایک آنہ۔ دوسری کلاس دو آنے۔ تیسری کلاس تین آنے۔ وغیرہ۔ اس کے باوجود والد صاحب نے کبھی انکار نہیں کیا۔ کسی نہ کسی طرح انتظام کر ہی لیتے اور یہ کہتے ہوئے تعلیم جاری رکھنے پر اصرار کرتے کہ ’’سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
ہمیں یاد ہے جب کئی مہینوں بعد بکرے، گائے یا بھینس کا سیر، آدھا سیر گوشت پکتا جو ہمیں بہت پسند تھا تو اس دن ابا گندم کے آٹے کا خاص اہتمام کرتے (عام طور پر مکئی کی روٹی پکتی تھی)۔ ہمیں گوشت کے سالن کے ساتھ گندم کے پھلکے پسند تھے۔ ہمارے اس شوق کو دیکھ کر اماں جنہیں ہم ’’ بے جی‘‘ کہتے تھے۔ اکثر کہا کرتی تھیں۔ ’’آئندہ زندگی میں تمہارے یہ شوق کون پورے کرے گا؟‘‘۔ پھر خود ہی کہتیں۔ اللہ شکر خورے کو شکر دے ہی دیتا ہے۔ وہ تمہیں ہر نعمت سے نوازے گا۔ مگر اس وقت میں نہیں ہوں گی۔ اللہ کا شکر ہے اس نے ہماری ماں کی یہ دعائیں پوری کیں اور ہمیں ہر نعمت سے نوازا۔ مگر اب وہ موجود نہیں ہیں۔ بے جی ہمیں بہت یاد آتی ہیں۔

ہمیں یاد ہے پانچویں جماعت تک ہمارے پاس پہننے کے لئے جوتا نہیں تھا۔ مسلسل ننگے پائوں چلتے دیکھ کر والد کس قدر رنجیدہ ہوتے تھے۔ اس دن ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ جب ابا کے ایک دوست جو مرچنٹ نیوی کے جہاز پر کام کرتے تھے۔ ایک بار چھٹیوں پر گائوں واپس آئے تو والد صاحب ان سے ہمارے لئے جوتے کا ایک پرانا جوڑا لائے۔ یہ جوتا اتفاق سے ہمارے ناپ کا تھا۔ پھر ایک دو سال ہم نے وہی جوتا پہنے رکھا۔
ہمیں اپنے گھر کے مسائل اور والدین کی مشکلات کا بچپن میں بھی احساس تھا اور محنت مشقت کرکے کچھ نہ کچھ کمانے کی تگ و دو کرتے رہتے تھے۔ ایک بار والد کو یہ خبر سنائی کہ ہم نے آپ کا مالی بوجھ کم کرنے کے لئے کتابوں کی جلد سازی کا کام شروع کر دیا ہے۔ اب آپ کو ہماری فیس کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس پر وہ کس قدر خوش ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں موتی کی طرح چمکنے والے آنسو آج بھی یاد ہیں ۔ (جاری ہے)