لاہور ( محمد نواز طاہر /نمائندہ امت) سیلاب کے باعث رُکا ہوا ریل کا پپیہ چل پڑا ہے اور پہلے مرحلے میں پاکستان ریلوے کی تاریخ کی پہلی ٹرین خیبر میل اور رحمان بابا ایکسپریس نے سوا مہینے کے بعد پہلی بار اپنی منزل پشاور سے کراچی تک سفر مکمل کیا ،سندھ میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث مسافر ٹرینیں معطل کردی گئی تھیں اور ریل کے مزدوروں اور تکنیک کاروں نے دن رات ایک کرکےتباہ ہونے والا ٹریک بحال کیا ہے جس کے بعد ابھی خیبر میل اور رحمان بابا ایکپریس بحال ہوئیں ہیں جبکہ باقی ٹرینیں مرحلہ وار پانچ اکتوبر سے بحال ہون گی ۔
نمائندہ ’امت‘ نے ڈاؤن خیبر میل ایکپریس سے لاہور سے کراچی تک اس پہلی ٹرین پر سفر کیا جس کے دوران تعمیرو مرمت ہونے والا ریل کا ٹریک تو’ پاس‘ ہوگیا لیکن ریل بحیثیت مجموعی فیل ہوگئی جبکہ مسافروں میں ریل کی بحالی پر خوشی اور اطمینان دکھائی دیا لیکن ریلوے کے افسروں میں اس کا عکس دکھائی نہیں دیا اور ٹرین کی حالت پہلے سے ابتر پائی گئی ۔ لاہور میں خیبر میل ایک کھنٹہ تاخیر سے پہنچی جس کا مسافروں کو شدت سے انتظار تھا لیکن تاخیر کی وجہ سے ان میں اضطراب دکھائی نہیں دیا ۔ جب ٹرین ایک گھنٹہ لیٹ پہنچی تو بھی مسافر ریلوے اور ریل کے عملے کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے ٹرین کی بحالی پر خوشی کا اظہار کررے تھے ، اور ریلوے ملازمین کی بھلائی اور بہتری کی دعائیں کررہے تھے ،
خیبر میل پہنچنے سے پہلے کراچی جانے والے مسافروں کو کرنٹ ریزورویشن سے رجوع کرنے کا اعلان کیا گیا جہاں بہت سے مسافروں کو پتہ چلا کہ آج ٹرین صرف روہڑی تک نہیں بلکہ کراچی تک پہنچنا شروع ہوگی ، روہڑی سے آگے مختلف اسٹیشنوں تک سفر کرنے والے مسافروں کو آگاہ کیا گیا کہ ان کی روہڑی اسٹیشن سے اگلے سفر کی بکنگ اور ٹکتوں میں توسیع کردی جائے گی اور توسیع کا یہ عمل لاہور سے روہڑی اسٹیشن تک جاری رہا ۔ یہ ٹرین مجموعی طور پر بیس بوگیوں پر مشتمل تھی جس میں مسافروں کیلئے اکانومی اور ایئر کندیشنڈ اسٹیدرڈ کی ایک ایک اضافی کوچ بھی شامل تھی ۔ خیال کیا جارہا تھا کہ بحال کے بعد ٹرین کی حالت میں بھی کوئی بہتری آئے گی لیکن یہ "بہتری” اے سی سلیپر کی کوچ میں اے سی کے بلوئر سے پانی ٹپکنے کی صورت میں نطر آئی ، یہ پانی روہڑی اسٹیشن تک ٹپکتا رہا جس دوران سیٹ اور برتھ دونوں مکمل طور پر بھیگ چکی تھیں جبکہ ریل کا عملہ اس لئے بے بس تھا کہ اس کی مرمت صرف کوچ کو ورکشاپ میں لے جاکر ہی ممکن ہے تاہم بڑے بلوئر کے سامنے عارضی طور پر ایک اضافی جالی لگا کر پانی کا رساؤ معطل کیا جاسکا ، یہ ریل کے عملے کا جگاڑ تھا یاہنر مندی لیکن ایک بات واضح تھی کہ ریل چلانے کے ذمہ دار ڈی ایس پشاور اور متعلقہ ٹراسپورت افسر کسی نے گاڑی کی روانگی سے قبل ریل کو چیک نہیں کیا تھا ،
ٹرین کے بریک بھی اپنی حالتِ زار پر ٹرین کے رکنے اور چلنے پر چیخ چیخ کر اپنی حالت کی دہائی دے رہے تھے ۔ لاہور سے خانیوال کا ٹریک ایک طرح سے نیا ہے تاہم وہاں بھی کئی بار جھتکے محسوس ہوتے رہے جبکہ ملتان سے لودھراں تک اگرچہ ٹریک کا کچھ حصہ نیا اور کچھ مرمت شدہ ہے لیکن اگر کسی ترقی یافتہ ملک کے ڈرائیو کو بتائے بغیر اس کا لوکو موٹیو( انجن ) دیدیا جائے تو وہ اس سیکشن پر تریک کی حالت دیکھ ہی اتر جائے گا ، یہ خاص ہنر اور صبر پاکستان ریلوے کے ڈرائیوروں کے پاس ہی ہے جن کی جتنی نظر ٹریک پر ہوتی ہے اس سے زیادہ نظر لائن کلیئر میمو یعنی ٹریک کی حالت ، کاشن اور رفتار کی ہدایات پر مشتمل راہداری پر ہوتی ہے۔ پاکستان ریلوے کے حکام نے جس جزبے سے ترین کی بحالی کا اعلان کیا تھا اس سے توقع کی جارہی تھی کہ ریل حکام بڑے اعزاز کے ساتھ اس ٹرین کو رخصت کریں گے اور مسافروں کو اپنی خدمات سے بھی آگاہ کریں گے لیکن نہ تو لاہور اور نہ ہی ملتان ، سکھر اور کراچی دویژن کے ڈی ایس یا ترانسپورٹ اور کمرشل افسر دکھائی دیے ۔ اس سے پہلے دریافت کرنے پر ملتان اور سکھر ڈویژن کے حکام نے بتایا تھا کہ ڈی سی او یا ڈی ٹی ریلوے استیشنوں پر موجود ہون گے ، سب سے خستہ حالت ریلوے کے دوسرے سب سے بڑے جنکشن روہڑی پر لائٹ تک کا انتظام نہیں تھا البتہ جس پلیٹ فارم پرٹرین نہیں کھڑی تھی اس سے چند گز کے فاصلے پر دوسرا پلیٹ فارم روشن تھا ، پہاڑی کی اوٹ میں اس پلیٹ فارم پر اسٹال چلانے والے وینڈرز کو بھی ایک روز قبل بتایا گیا تھا کہ رحمان بابا اور خیبر میل ٹرینیں اپنا سفر کراچی تک مکمل کریں گی ،
روہڑی اسٹیشن پر ویندر فرزند نے ’امت‘ کو بتایا کہ اس نے چالیس روز کے بعد آج کچھ گھنتے قبل اپنے روز گار کے اڈے پر قدم رکھا ہے ، بارشوں اور سیلاب نے اس کا روزگار بھی چھین لیا تھا ، اس نے امت کے استفسار پر بتایا کہ اسے معلوم نہیں کہ سوا مہینے تک جب وہ روزگار نہیں کما سکا تو پلیٹ فارم کا ٹھیکہ یا ٹھیکیدار کے پیسے کیسے ادا کرے گا یا اسے ان سے استثنیٰ مل جائے گا ۔ خیہبر میل کے ساتھ ایسی کوچ بھی لگائی گئی جس کے پائدان ہی ٹیڑھے تھے ،کئی کوچوں کی سیٹیں ہلتی ہوئی دکھائی دیں ، ٹرین کی ترکیب بھی ایسی نرالی تھی کہ ابتدائی اور آخر والے ڈبے تو اکانومی کلاس کے تھے اور ان کے درمیان ڈاک کا ڈبہ اور پاور وین لگائی تھیں جن کی وجہ سے اکانومی کلاس کے مسافروں اور ریل کے ربننگ اسٹاف کو ٹرین کی چیکنگ کے عمل میں شدید دشواری کا سامنا رہا ،
ایک سے زائد بار چلنے کے بعد ٹرین اس لئے روکنا پڑی کہ اکانومی کلاس کے مسافروں کو ان کا مطلوبہ ڈبہ تلاش کرنے کے عمل میں ہی ٹرین چل پڑی تھی ، ٹرین کے ڈبوں کی اس "ترقی” کے باعث مجموعی طور پر ٹرین نے اپنی منزل تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ اضافی وقت لیا ۔ ریل کا رننگ اسٹاف اور مسافر پاکستان ریلوے کے مجاز حکام کی اس دانشمندی سے مضطرب دکھائی دیے ، ریل کے عملے کے مطابق ٹرین میں کچھ بوگیاں لاہور سے شامل ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پاور وہین اور ڈاک کا ڈبہ درمیان میں آجاتا ہے ، جبکہ ریل کے عملے کا یہ بھی ماننا ہے کہ شنٹنگ پراسیس میں صرف پانچ منٹ اضافی استعمال کرنے سے مسافروں اور رننگ اسٹاف کو درپیش یہ مشکل آسان بنائی جاسکتی ہے ۔
ٹرین کراچی پہنچنے تک بہت سے مسافروں کے خیالات تبدیل ہوچکے تھے اور وہ ریل کے حکام کو کوستے دکھائی دیے کہ جب ریل چلائی ہے تو کم از کم اس کو کوئی چیک ہی کرلیتا ، ریل کے مسافر خاص طور پر کراچی کی حدود میں زیادہ اکتاہٹ محسوس کرتے دکھائی دے جہاں پورے راستے کے مقابلے میں انتہائی کم رفتار رکھی گئی ۔ واضح رہے کہ کچھ دنوں کیلئے ریل حکام نے بحال ہونے والی ٹرینوں کے سفر کے دورانئے میں تین گھنٹے کا اضافہ کیا ہے لیکن اس دورانئے کے ساتھ ساتھ کوچوں کی تعداد بڑھانے اور حالت بہتر کرنے کی اپیل کرنے والے مسافروں کا کہنا تھا کہ ریل حکام نے کرائے تو بڑھا لئے ہیں لیکن انہیں اپنی عینک بھی درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسافر آج بھی ریل کے سفر کو دوسری ٹرانسپورٹ سے بہتر ، محفوظ اور آرام دہ سمجھتے ہیں لیکن ریل کے کچھ لوگ شائد یہ آرام چھیننا چاہپتے ہیں ۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ رات گئے ایک مراسلہ شیئر کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ سکھر ڈویژن کے ڈی ایس نے ریل کا سفر غیر محفعوظ قراردیا ہے اور پانچ اکتوبر کی ترینوں کی بکنگ نہ کرنے کی سفارش کی ہے ، اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے ریلوے کے ترجمان بابر رضا نے بتایا کہ ٹرینوں کا شیڈول تبدیل نہیں کیا گیا اور جو ٹرینیں چلانے کا اعلان کیا گیا ہے وہ اپنے اوقات کے مطابق چلیں گی اس کے برعکس جب ڈی ایس کراچی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو بار بار کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا۔