احمد خلیل جازم:
پاکستان ریلویز کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے بھی نہیں۔ اسے تنخواہوںکی مد میں خطیر رقم کی کمی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس برس دوسری بار کرایوں میں ہوش ربا اضافہ کرکے اس کمی کو پورا کیا جارہا ہے۔ پاکستان ریلویز کو ایک سے ڈیڑھ ارب روپے کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات کرائے بڑھاتے وقت پاکستان ریلویز نے خود کہی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آج کم و بیش پچیس دن اوپر ہو گئے کہ ریلوے کی چھوٹے ملازمین کو بھی تنخواہ کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔ ایک ریلوے ملازم نے شناخت چھپانے کی شرط پر بتایا کہ، ہم پورا ماہ قرض پر گھر چلاتے ہیں اور اگلے مہینے تنخواہ ملنے پر ادھار چکا کر نیا کھاتہ شروع کردیتے ہیں۔ اس مرتبہ کس منہ سے دکان دار سے مزید ادھار کا تقاضہ کریں؟ محکمہ ریلوے کے مطابق اکانومی کلاس کے کرایے میں 23 فیصد، جبکہ اے سی کلاس کے کرائے میں 19 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس جون میں بھی کرایہ 20 فی صد تک بڑھایا گیا تھا۔ یوں تقریباً رواں سال 39 فیصد تک کرایوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اس بات پر کہ ریلویز کے افسران اعلیٰ بھی تو تنخواہوں سے محروم ہوںگے؟ تو اس ریلوے ملازم کا کہنا تھا ’’آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ صرف گریڈ 1 سے لے کر 16 تک کے ملازمین کی تنخواہیں بیس سے پچیس دن لیٹ ہوئی ہیں۔ جس پر لوکو شیڈ اور ریلوے اسٹیشن پر ملازمین نے پُرزور احتجاج بھی کیا۔ افسران کی تنخواہیں بروقت اور بیس گریڈ سے اوپر والوں کی تنخواہ یکم سے دو روز پہلے ان کے اکائونٹ میں آجاتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ ایک ریلوے ملازم دس بندوں کا خاندان پال لیتا تھا۔ اچھی رہائش، عزت دارانہ سفراوربروقت تنخواہ ملتی تھی۔ لیکن اب سب کچھ خواب ہوگیا ہے۔ ریلوے خود کو سنبھالنا ہی نہیں چاہتا۔ ان کے پاس اتنی زیادہ زمین ہے جو پاکستان میں کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں۔ لیکن افسران کی ملی بھگت سے بااثر افراد ان زمینوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے، کہ راولپنڈی ڈویژن میں بہت قیمتی اراضی جو تقویٰ مسجد ویسٹریج کے ساتھ تھی اور ریلوے کی ملکیت تھی، اس پر ایک با اثر ادارے کے ریٹائرڈ آفیسر نے قبضہ کرلیا۔ کروڑوں روپے کے پلاٹ پر ڈی ایس ریلویز پنڈی کی ملی بھگت سے قبضہ کیا گیا ہے۔ اب اس نے افسران کو مزید پیسہ کھلا کر اس پر کنسٹرکشن شروع کر دی ہے۔ کئی ایسی مزید اراضیاں ہیں جولاوارث پڑی ہیں، جس پر کچھ برسوں بعد کوئی نہ کوئی قبضہ کرلیتا ہے‘‘۔
کرایوں کی بڑھوتری کے حوالے سے منسٹری آف ریلویز کے ایک افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ایندھن کی مہنگائی ایک وجہ ضرور ہے، جس وجہ سے کرایہ بڑھایا گیا ہے۔ لیکن اتنا زیادہ کرایہ ایندھن کی وجہ سے نہیںہے۔ دراصل موجودہ منسٹر کی توجہ ریلویز کی جانب بالکل نہیں ہے۔ جبکہ سابق ریلوے منسٹروں نے بھی ریلوے کا بڑا نقصان کیا ہے۔ انہوں نے انفراسٹرکچر کے بجائے سیاسی امور پر توجہ دی جس وجہ سے ریلوے تباہ ہوئی۔ اس وقت صرف دس دن کا فیول باقی بچا ہے وہ بھی سیلاب کی وجہ سے بچ رہا ہے کیونکہ گاڑیاں نہیں چل رہیں اور ایک مشین سے تیل نکال کر دوسری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ریلوے مسافروں کو سبسڈی دیتی ہے، لیکن یہاں ریلوے سے منافع کمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ منافع مسافر ٹرین سے نہیں فریٹ ٹرین سے کمایا جاتا ہے۔
ریل کی جتنی فریٹ ہے، یا تو وہ پرائیویٹ سیکٹر کو دے دی گئی ہے، یا پھر این ایل سی ریل کے فریٹ کو چلنے نہیں دیتا۔ فریٹ کا بڑا کاروبار ختم ہوچکا ہے۔ انہوں نے تو مسافر ٹرینیں بھی پرائیویٹ کردی تھیں، بلکہ افسران کی مکمل کوشش تھی کہ ہر گاڑی کو نجی کمپنی کو دے دیا جائے۔ کیونکہ ٹھیکے داروں سے کمیشن ملتا تھا۔ چنانچہ پریکس کے زیر انتظام نجی کمپنیوں کو ٹھیکے پر ٹرینیں دے دی ہیں، جس میں افسران کو بھی ماہ بہ ماہ اچھی رقم بچ رہتی ہے۔ ٹھیکے دار نے بھی اپنی من مانی شروع کردی۔ ریلوے ملازمین کی سب سے بڑی سہولت پاس سسٹم تھی وہ ختم کردیا گیا۔ دو سے پانچ پرسنٹ نجی کمپنی کوٹہ دیتی ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری جانب حالیہ ریلوے منسٹر سعد رفیق کے پاس دو منسٹریاں ہیں۔ دوسری منسٹری ہوا بازی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ پچھلے دور میں سعد رفیق نے بہت محنت کی تھی، لیکن اب وہ سب برباد ہوگئی۔ اب خسارہ دن بدن بڑھ رہاہے اور منسٹر صاحب کو معلوم ہے کہ ان کے پاس وقت زیادہ سے زیادہ ایک برس کا ہے۔ بجائے ریلوے کو دوبارہ کھڑا کرنے انہوں نے ہوا بازی کی جانب توجہ کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سعد رفیق وہ ٹیم بھی نہیں بنا سکے، جو گزشتہ دور میں ان کے پاس تھی۔ وہ بڑے پروفیشنل لوگ تھے، جن میں صرف آپریشنل جنرل مینیجر ہی شاید ریلوے کا سب سے قابل اور ایمان دار افسر تھا، جسے شیخ رشید نے آتے ہی کھڈے لائن لگا دیا۔ ریلوے کا ادارہ اب اگر اٹھے تو سب سے پہلے انفراسٹرکچر بنانا پڑے گا۔ ریلوے کے پاس پرچیزنگ نہیں ہے، کوئی مشین خراب ہوتی ہے تو لوکل پرچیز کی جاتی ہے اور وہ اتنی غیر معیاری ہوتی ہے کہ مشین اسے چلا نہیں سکتی۔ کیونکہ فورمین سے لے کر ڈی ایم ای تک کے لوگ پیسے کماتے ہیں۔ جس وجہ سے سامان کسی کام کا نہیں ہوتا، الٹا مسافروں کی زندگیاں دائو پر لگی ہوتی ہیں۔ پھر اسٹاف بہت کم ہے جو مینٹی ننس نہیں کرپاتا۔ اسی طرح ریلوے میں چوری بہت ہوتی ہے۔ وہ معروف کیس جس میں انجنوں کے ریڈی ایٹرز چوری ہوئے تھے، اس کا آج کچھ نہیں ہوسکا۔ پانچ لوگوں کے نام تھے، سب باعزت بری ہوکر واپس آگئے، لیکن چوری کا کچھ معلوم نہیں ہو سکا‘‘۔
اس حوالے سے ریلوے یونین کے ایک اہلکارکا کہنا تھا کہ ’’ریلوے کو افسرشاہی کھا گئی ہے۔ انہوں نے کنالوں پر محیط بنگلے رکھے ہوئے ہیں جن کے ساتھ تین تین سرونٹ کوارٹر ز ہیں۔ یہ لوگ وہی کوارٹرز کرائے پر بھی چڑھا دیتے ہیں، تو آدھی تنخواہ وہاں سے نکل آتی ہے۔ آپ صرف ریلوے اسپتال ہی دیکھ لیں، سب نجی شعبے کو دے دیئے گئے ہیں، جہاں ریلوے ملازم کی دیکھ ریکھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے وہاں انہیں دوا مل جاتی تھی اب وہ بھی نہیں ملتی۔