جب سورج لپیٹ لیا جائے گا.
اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔
اور جب حاملہ اونٹنیاں یونہی چھوڑ دی جائیں گی۔
اور جب وحشی جانور جمع کئے جائیں گے۔
اور جب سمندر آگ ہو جائیں گے۔
اور جب روحیں جسموں سے ملا دی جائیں گی۔
اور جب اس بچی سے جو زندہ دفنا دی گئ ہو، پوچھا جائے گا۔
کہ وہ کس گناہ کے سبب قتل کر دی گئی ؟ (بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ)
یہ قرآن کریم کی سورۃ تکویر کی آیات ہیں جن کے مطابق روز قیامت جس بچی سے اس کے قتل کا سبب پوچھا جائے گا، اس کا تعلق زمانہ جاہلیت سے ہے جب معصوم بچیوں کو ان کے والدین زندہ درگور کردیا کرتے تھے ۔ مگر آج ذکر ہے نو ماہ کی معصوم عنابیہ کا ،جو پاکستان کے سب سے بڑے اور معاشی طور پر ترقی یافتہ شہر کراچی میں مبینہ طور پر پولیس (یا پولیس کے بقول ڈاکووں) کی اندھی گولی کا نشانہ بن جاتی ہے اور اس کی آنکھیں سوال کر رہی ہیں کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟
یہ سوال حکومت اور ریاست سے ہے ۔اس ریاست سے جسے عنابیہ جیسی لاکھوں بچیوں کی ماں کا کردار ادا کرنا ہے، مگر یہ کیسی ماں ہے کہ جو اپنی اولاد کی فکر سے آزاد ہے اور دودھ پیتی معصوم عنابیہ رکشے میں اپنی حقیقی ماں کی آغوش میں بیٹھی اندھی گولی کا نشانہ بن جاتی ہے، اور پھر یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ ننھے وجود میں اترنے والی گولی ڈاکوؤں کی تھی یا پولیس والوں کی؟
ننھی مقتولہ کی زخمی ماں جس کے جسم کے ساتھ روح بھی گھائل ہو چکی ہے، یہ بتا رہی ہے کہ ڈاکو تو ہوائی فائرنگ کر کے بھاگ گئے تھے۔وہ ماں بیٹی ڈاکوؤں کا پیچھا کرنے والے پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔یہی بیان مقتولہ کا ماموں اویس بھی میڈیا کے سامنے دیتا ہے۔ مگر ظاہر ہے قانون کو تو اپنا راستہ بنانا اور اپنے "محافظوں” کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ سو فی الوقت تو پولیس حکام کی ابتدائی تحقیق کا پرنالہ اسی روایتی نشان پر گر رہا ہے کہ بچی کی موت کے ذمہ دار ڈاکو ہیں، سو جیسا کہ بچی کے ایک عزیز نے کہا کہ پولیس سے کیا توقع رکھنی، بہت تیر مار بھی لیا گیا تو دو چار اہلکار معطل ہوں گے ،انکوائری ہوگی، چند ہفتوں میں گرد بیٹھ جائے گی اور اس معصوم کے اندھے قتل کا الزام نامعلوم ڈاکوؤں کے کھاتے میں ڈال کر فائل بند کر دی جائے گی ۔اللہ اللہ خیر صلا ۔
خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
اس سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی کچھ مختلف نہیں ہونے والا ۔ تین سال پیچھے چلے جائیں تو اپریل 2019 میں بھی ایسا ہی دل خراش واقعہ کراچی کے علاقے صفورہ چورنگی کے قریب پیش آیا تھا جب 20 ماہ کا احسن اپنے والدین کے ساتھ رکشے میں جاتے ہوئے اسی طرح پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔ سچل تھانے میں قتل کا مقدمہ درج ہوا ۔چار اہلکاروں کو حراست میں بھی لیا گیا۔ پھر اس وقت کے نیک نام شہرت کے حامل آئی جی سندھ کلیم امام نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم بہت معذرت خواہ ہیں”۔اب ظاہر ہے اتنے بڑے افسر کی معذرت کے بعد تحقیقات کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے ؟ ننھا احسن بھی اپنی آنکھوں میں وہی سوال لے کر مٹی تلے جا سویا جو آج شیرخوار عنابیہ کی آنکھوں میں ہے ۔۔
مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا ؟
احسن کے والد کاشف نے یہ دلخراش واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم میاں بیوی اور بیٹا رکشے میں گھر جا رہے تھے کہ اچانک گولیاں چلنے کی آواز آئی ۔احسن چیخ مار کر ایک طرف لڑھک گیا۔میری بیوی نے حواس باختہ ہو کر کہا "بچے کے سینے سے خون نکل رہا ہے۔” سامنے دیکھا تو چار پولیس اہلکار فائرنگ کر رہے تھے ۔مذکورہ واقعے سے چند ماہ پہلے دس سالہ بچی امل نے کورنگی روڈ پر گاڑی کے اندر گولی لگنے کے بعد اپنے والدین کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا تھا۔ تب بھی اصرار کیا گیا کہ گولی ڈاکوؤں کی تھی مگر جب والدین نے فرانزک پرجوابی اصرار کیا تو مان لیا گیا کہ ذمہ دار پولیس ہے۔ میڈیا میں شور اٹھنے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا۔ چند ایک ٹی وی پروگرام بھی ہوئے، سوشل میڈیا پر معاملہ گرم ہوا اور پھر چند ہفتوں میں ٹھنڈا پڑ گیا۔ سندھ اسمبلی نے امل کے نام سے ایک بل بھی پیش کیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ۔ امل اور احسن کے واقعات کے درمیان پولیس اور ڈاکوؤں کی مڈبھیڑ میں چار اور ایسے واقعات پیش آ چکے تھے جن میں ایک دس سالہ بچہ، ایک رکشہ ڈرائیور اور میڈیکل کی طالبہ نمرہ بےگناہی کے جرم میں موت کا رزق بن گئے ۔ یہ سب واقعات ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ جبکہ تازہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ کراچی میں نو ماہ کے دوران ڈکیتی مزاحمت کے نتیجے میں 74 شہری جان سے جا چکے ہیں ۔
ایک کولیگ نے گزشتہ روز گولی کا نشانہ بننے والی ننھی عنابیہ کی چند روز پہلے کی تصویر شئیر کی جس میں وہ غالبا اپنی دادی یا نانی کی گود میں سفید پھول دار فراک پہنے گڑیا بنی بیٹھی ہے۔ اس کے معصوم چہرے پر سجی دو خوبصورت اور بڑی سی آنکھوں میں سرمہ یا کاجل لگا ہے۔ ہمیں یوں لگا کے عنابیہ کی روشن آنکھوں کی پھیلی ہوئی پتلیوں میں اپنی ہی لاش سامنے پا کر ان گنت سوال جم کر رہ گئے ہیں۔اور ان میں سے ہر سوال جگر چھلنی کردینے والا ہے۔ سب سے دل خراش سوال یہی ہے۔
"مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا ؟”
پھر یوں لگا کہ معصوم عنابیہ کی پھیلی پتلیوں میں کراچی شہر کی ساری مظلومیت اور بے چارگی سمٹ آئی ہے، اور وہ پوچھ رہی ہے۔
کراچی آخر کب تک جرم ضعیفی کی سزا بھگتتا رہے گا ؟
اس کے شہری کب تک نامعلوم افراد کے خوف اور اندھی گولیوں کی زد میں رہیں گے؟
اس شہر کی ماؤں کی گودیں کب تک اجڑتی رہیں گی ؟
اور کب ریاست ماں بن کر انہیں اپنی مہربان آغوش میں لے گی ؟