امت رپورٹ:
معروف سیاسی و عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر(ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ عمران خان لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے میں اس لیے تاخیر کر رہے ہیں کہ اب وہ اس ایڈونچر سے بچنے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم اس کے لیے وہ فیس سیونگ چاہتے ہیں۔ تاکہ پارٹی کارکنان و سپورٹرز کو مطمئن کیا جاسکے۔ کیونکہ بغیر فیس سیونگ، لانگ مارچ منسوخ کرنے کے نتیجے میں پارٹی کارکنان و سپورٹرز کا سخت ردعمل آسکتا ہے۔ لیکن وفاقی حکومت تاحال چیئرمین پی ٹی آئی کو فیس سیونگ دینے کے حق میں نہیں۔ اگر اتحادی اپنے اس موقف پر قائم رہتی ہے تو پھر بحالت مجبوری عمران خان کو لانگ مارچ کے لئے باہر نکلنا پڑے گا۔ تاہم لانگ مارچ کے نتیجے میں اگر امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا تو پاک فوج خاموش نہیں بیٹھے گی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں جو بیان دیا ہے، اس میں ان کا واضح اشارہ اسی طرف تھا۔
واضح رہے کہ چند روز پہلے ملٹری اکیڈمی کاکول میں پی ایم اے لانگ کورس کی پاسنگ آئوٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلح افواج عوام کی حمایت سے کسی بھی ملک، گروہ یا قوت کی جانب سے پاکستان کو سیاسی یا معاشی طورپرغیر مستحکم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گی۔
اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی، جنرل باجوہ کے اس بیان کی اپنے اپنے طور پر تشریح کر رہی ہیں۔ تاہم بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ یہ پیغام پی ٹی آئی کے لئے تھا، جو اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد مسلسل اور منظم طور پر ملک کے سیکورٹی اداروں کے خلاف مہم چلارہی ہے۔ اور اب لانگ مارچ کی صورت میں ملک کو سیاسی و معاشی طور پر مزید عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتی ہے۔ ’’امت‘‘ سے خصوصی بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ نے دیگر اہم معاملات پر بھی اظہار خیال کیا۔
پی ٹی آئی کے مجوزہ لانگ مارچ کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’’لانگ مارچ، عمران خان کے لیے آخری ترپ کا پتہ ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو ادراک ہے کہ ترپ کا یہ آخری پتہ خاصا پُرخطر ہے۔ اسے استعمال کرنے کے لیے عمران خان کو ماضی جیسی سہولیات حاصل نہیں۔ یہی اس وقت عمران خان کا سب سے بڑا ڈس ایڈوانٹیج ہے۔ انہیں صرف پارٹی کے فالوورز اور کارکنان کی سپورٹ ہے۔ جبکہ لانگ مارچ جیسے ایڈونچر کے لیے کارکنان اور سپورٹرز کے علاوہ دو دیگر فیکٹر بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ملکی تاریخ میں جب بھی کوئی تحریک چلی یا لانگ مارچ ہوا تو اس کے پیچھے یا تو اسٹیبلشمنٹ یا پھر بیرونی طاقتیں ہوتی تھیں۔ لیکن عمران خان کو اس بار ان میں سے ایک بھی ایڈوانٹیج حاصل نہیں۔ اگرچہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے لانگ مارچ کو جہاد کا نام دے کر مذہبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی کہ عام لوگ بھی ان کے ساتھ آجائیں۔ لیکن یہ حربہ موثر ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ پھر یہ کہ عمران خان کے فالوورز و کارکنان کی اکثریت شہری علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ عمران خان کا ارادہ تھا کہ وہ اسلام آباد کے اندر آکر دھرنا دے دیں گے۔ جہاں شہری علاقوں کے عوام کے لیے ہر طرح کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ لیکن وفاقی حکومت نے طے کرلیا ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو پہلے کی طرح ڈی چوک تک یا اسلام آباد کے اندر نہیں آنے دینا۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو سیکورٹی اداروں کی پوری سپورٹ حاصل ہے۔
اس صورتحال میں پی ٹی آئی اب اسلام آباد کے باہر بیٹھ کر وفاقی دارالحکومت کے داخلی و خارجی راستوں کو بلاک کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ ایسے میں دھرنے کے شرکا کو اشیائے خورونوش اور قیام و طعام کے لیے وہ سہولیات دستیاب نہیں ہوں گی، جو شہر کے اندر شاپنگ سینٹروں اور دکانوں کی صورت میں مل جاتی ہیں۔ چنانچہ اگر عمران خان اسلام آباد کے باہر دھرنا دیتے ہیں تو شہری علاقوں کے شرکا زیادہ عرصہ قیام نہیں کرسکیں گے۔ یہ وہ عوامل ہیں، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنے میں تاخیر کا سبب بن رہے ہیں۔ لانگ مارچ کی تاریخ میں تاخیر کا دوسرا سبب آڈیو لیکس بھی ہیں۔ مسلسل آڈیو لیکس کے نتیجے میں عمران خان کے بیانیہ کو شدید دھچکے لگ رہے ہیں۔ جبکہ مختلف کیسزکے اندراج نے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو پریشان کر رکھا ہے۔ خاص طور پر فارن فنڈنگ جیسے اہم کیس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ ان تمام حالات نے عمران خان کو بیک فٹ پر کر دیا ہے اور اب وہ لانگ مارچ کے بجائے فیس سیونگ کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح وفاقی حکومت ان کے دبائو میں آکر چاہے فوری الیکشن نہ بھی کرائے۔ لیکن موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے کم از کم دو تین مہینے پہلے کی تاریخ دیدے۔ اس صورت میں چیئرمین پی ٹی آئی کو لانگ مارچ منسوخ کرنے کا جواز یا فیس سیونگ مل جائے گی۔ لیکن وفاقی حکومت یہ فیس سیونگ دینے کے لیے فی الحال تیار نہیں۔ کیونکہ اب وفاقی حکومت کے پائوں بتدریج مضبوط ہورہے ہیں۔ لہٰذا وہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر ہی الیکشن کرانا چاہتی ہے۔ تاکہ اس عرصے کے دوران عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دیدے اور عام انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے سکے۔
آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، یورپی یونین، امریکہ اور عرب ممالک کا رویہ بھی اب پاکستان کے حوالے سے نرم ہوچکا ہے۔ یہ سب چیزیں موجودہ اتحادی حکومت کے حق میں جارہی ہیں۔ اگر وفاقی حکومت، عمران خان کو فیس سیونگ نہ دینے کے موقف پر قائم رہتی ہے، تب ہی عمران خان مجبوراً لانگ مارچ کا خطرہ مول لیں گے۔ تاہم موجودہ بحران کو ختم کرنے کے لئے پس پردہ بھی کچھ چیزیں چل رہی ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے درمیان کا کوئی راستہ نکال لیا جائے۔ مثلاً فوری الیکشن کے بجائے موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے دوتین ماہ پہلے الیکشن کی کسی تاریخ پر حکومت اور پی ٹی آئی کو راضی کرلیا جائے۔ یہ کوشش کس حد تک کامیاب رہتی ہے؟ اس حوالے سے اس ماہ کے آخر تک صورتحال واضح ہوجائے گی‘‘۔
اس سوال پر کہ کاکول اکیڈمی میں خطاب کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کسی ملک یا گروپ کی جانب سے پاکستان کو سیاسی یا معاشی طور پر غیر مستحکم نہ کرنے کی اجازت دینے سے متعلق جو بات کی، یہ پیغام کس کے لئے تھا؟ آصف ہارون کا کہنا تھا ’’اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ’’ہائبرڈ وار‘‘ پہنچارہی ہے۔ جس میں پہلے بھارت، اسرائیل اور مغرب کا رول چلا آرہا تھا۔ لیکن اب پاک فوج اور حکومت کے خلاف ’’ہائبرڈ وار‘‘ چلاکر پی ٹی آئی بھی اس نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہے۔ مذکورہ نیٹ ورک کے مختلف کردار پکڑے جاچکے ہیں۔ اس ’’ہائبرڈ وار‘‘ کے ذریعے پی ٹی آئی نے کافی مقاصد یوں حاصل کرلئے ہیں کہ پہلی بار پاک فوج میں کسی حد تک دراڑ ڈالی۔ جبکہ ریٹائرڈ فوجیوں کو خاصی حد تک اپنا ہمنوا بنالیا ہے۔ جنرل باجوہ کا پیغام یہی ہے کہ کوئی بھی ملک یا گروہ ’’ہائبرڈ وار‘‘ اور دیگر حربوں کے ذریعے امن و امان کا مسئلہ پیدا کرکے پاکستان کو سیاسی یا معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا تو پاک فوج اس سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔ کیونکہ اس اسٹیج پر جب ملکی معیشت بحران کا شکار ہے۔ پاکستان کا ایک تہائی حصہ تاحال سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایسے میں مزید عدم استحکام پیدا کرنا ملک دشمنی ہے، جس کی پاک فوج اجازت نہیں دے گی۔ پی ٹی آئی کے مجوزہ لانگ مارچ کو بھی عدم استحکام بڑھانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے‘‘۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ دورہ امریکہ کے بارے میں آصف ہارون کا کہنا تھا ’’ اس دورے کو الوداعی اور خوش آمدید وزٹ، دونوں معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔ الوداعی یوں کہ جنرل باجوہ نے خود کہہ دیا ہے کہ وہ مزید توسیع نہیں لیں گے۔ اور مقررہ وقت پر ریٹائر ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جنرل باجوہ کو ایک Honorable Farewell (باعزت طریقے سے الوداع کہنا) دیا گیا ہے۔ ماضی میں اس طرح کی مثال کم ملتی ہے۔ اس سے قبل بھی جب جنرل باجوہ امریکہ گئے تھے تو انہیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی تھی۔ اصل سوال یہ ہے کہ اب جبکہ جنرل باجوہ خود مزید توسیع نہ لینے کا کہہ چکے ہیں تو امریکہ میں پھر بھی انہیں اس قدر پذیرائی کیوں ملی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنرل باجوہ، امریکہ کی گڈ بک میں پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو مستحکم کرنے اور اسے موجودہ سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اگر جنرل باجوہ کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ان کا موجودہ منصب پر کچھ اور دن رہنا ضروری ہوجاتا ہے تو امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یوں جنرل باجوہ کے دورہ امریکہ کو ویلکم وزٹ بھی کہا جاسکتا ہے‘‘۔
جنرل باجوہ کے مستقبل کے بارے میں ایک سوال پر آصف ہارون کا کہنا تھا ’’امریکہ کا خیال ہے کہ جنرل باجوہ نے خطے کی سیکورٹی اور افغانستان کے ایشوپرایک اہم رول ادا کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔ لہٰذا وہ جنرل باجوہ کی ان صلاحیتوں کو مزید بروئے کارلانا چاہتے ہیں۔ اس امریکی سوچ کے تناظر میں یہ بعید ازقیاس نہیں کہ جنرل باجوہ کو بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ممکنہ طور پر جنرل راحیل شریف کی طرح کسی اہم جگہ ایڈجسٹ کر دیا جائے۔ اگر پاکستان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جنرل باجوہ کو مستقبل میں صدارت کا منصب دیا جا سکتا ہے۔ یا پھر جس طرح جنرل جہانگیر کرامت کو ریٹائرمنٹ کے بعد پینٹا گون میں اہم ملازمت دی گئی تھی، یہ آپشن خارج از امکان نہیں‘‘۔