اقبال اعوان:
سپر ہائی وے پر کوچ میں آگ ایئرکنڈیشن پلانٹ میں شارٹ سرکٹ سے لگی۔ جس نے کوچ کے پچھلے حصے کو لپیٹ میں لے لیا۔ جہاں زیادہ تر خواتین اور بچے موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں میں بڑی تعداد انہی کی ہے۔ واقعے کی تحقیقات کیلئے نوری آباد پولیس اور سندھ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی مشترکہ کمیٹی بنائی گئی ہے۔ میتیں کراچی سے ایدھی ایمبولینسوں میں دادو کے علاقے خیرپور ناتھن بھیج دی گئی تھیں۔ جہاں تدفین کی گئی۔
سندھ حکومت کی جانب سے جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کیلئے ان سطور کے لکھے جانے تک کسی امداد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ سپر ہائی وے ایم نائن پر بدھ کی شب بارہ بجے کے قریب پیش آیا تھا۔ کراچی کے ریلیف کیمپوں میں سیلاب متاثرین میں سے کچھ خاندان واپس آبائی گائوں جارہے تھے۔ مرد، خواتین اور بچوں کی تعداد 50 سے زائد تھی۔ کوچ جامشورو کے علاقے نوری آباد پہنچی تھی کہ اس کے پچھلے حصے میں نصب ایئرکنڈیشن پلانٹ میں آگ لگ گئی اور آگے ایئرکنڈیشن کے پائپوں کے ذریعے بس میں پھیل گئی۔
کوچ کو روکا گیا اور لوگوں نے دروازوں سے کودنا شروع کر دیا۔ آگ دیکھ کر موٹر وے پولیس بھی پہنچ گئی تھی، جس نے جلتی کوچ میں سے مسافروں کو نکالنا شروع کیا۔ جامشورو اور حیدرآباد سے ایدھی کی درجنوں ایمولینسیں بھی اطلاع ملنے پر آگئی تھیں۔ جبکہ جامشورو سے فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی پنچ گئی تھی۔ چونکہ کوچ کے پچھلے حصے میں موجود ایئرکنڈیشن پلانٹ میں آگ لگی تھی اور خواتین بچوں کو پچھلے حصے میں بٹھایا گیا تھا۔ لہذا آگ سے لہٰذا خواتین اور بچے زیادہ متاثر ہوئے۔ ایدھی رضاکار جاں بحق خواتین اور بچوں کو کراچی لے آئے تھے۔ سول اسپتال کے برنس وارڈ میں کارروائی کے بعد لاشیں ایدھی سرد خانے سہراب گوٹھ منتقل کردی گئی تھیں۔ جبکہ زخمی کراچی نہیں لائے گئے۔ انہیں حیدرآباد اور جامشورو لیاقت اسپتال بھیج دیا گیا۔
بعدازاں جمعرات کی صبح سویرے جاں بحق لوگوں کے ورثا ایدھی سردخانے آگئے۔ جہاں ایدھی رضا کاروں نے میتوں کو غسل کفن کے بعد تابوت میں رکھ کر اپنی ایمبولینسوں کے ساتھ خیرپورناتھن روانہ کر دیا۔ جن کے ساتھ ان کے ورثا بھی تھے۔ موٹر وے پولیس اور نوری آباد پولیس نے ابتدائی تحقیقات میں واقعہ کو اتفاقی حادثہ قرار دیا تھا۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ آگ کوچ کے ایئرکنڈیشن میں شارٹ سرکٹ سے لگی تھی۔ ادھر میتوں اور زخمیوں کے خیرپورناتھن پہنچنے پر کہرام مچا ہوا تھا کہ طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ کر کراچی جانے والے لاشوں کی صورت میں واپس آئے۔
سندھ کے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے اس حوالے سے کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعہ کی چھان بین کی جائے گی۔ اگرکسی کی کوتاہی ہوئی تو کارروائی کریں گے۔ تاہم جاں بحق یا زخمیوں کو مالی امداد دینے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ ایدھی سہراب گوٹھ کے انچارج محمد مظہر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بدھ کی رات سردخانے میں 9 خواتین اور 9 بچوں کی لاشیں لائی گئی تھیں۔ جن کو جمعرات کی صبح رضاکار ایمبولینسوں میں لے کر دادو کے علاقے خیرپورناتھن شاہ لے گئے تھے۔
خیال رہے کہ کراچی سے اندرون ملک 8 سے 10 ہزار کوچیں مختلف شہروں کو آتی جاتی ہیں اور تقریباً تمام میں ایئرکنڈیشن نصب ہوتا ہے۔ چند سال قبل ٹنڈو الہ یار کے علاقے میں ایئرکنڈیشن میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگی تھی اور ایئرکنڈیشن کوچیں بالکل بند شیشوں والی ہوتی ہیں۔ ایمرجنسی راستے زیادہ تر لاک ہوتے ہیں اور تیز آگ ایئرکنڈیشن کی گیس کے ساتھ زیادہ تیزی سے بھڑکتی ہے اور پلاسٹک، ریگزین، ربڑ، تیل کے ساتھ مل کر پھیل جاتی ہے۔ ٹنڈو الہ یار واقعہ میں 35 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔
معلوم ہوا ہے کہ سپرہائی وے پر کوچوں اور وینوں میں زیادہ تر ایئرکنڈیشن میں آگ لگنے کی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ جس کا سبب وقت پر مینٹیننس کا نہ ہونا، ناکارہ پارٹس کو تبدیل نہ کرنا، اور گیس فلنگ کراتے وقت اختیاط نہ کرنا ہے۔ ان کوچوں میں ایمرجنسی کی صورت میں باہر نکلنے کے دروازے بھی نمایاں اسٹیکر کے ساتھ نہیں ہوتے۔ آگ بجھانے کے آلات بھی موجود نہیں ہوتے۔ سندھ حکومت ہمیشہ ایسے حادثات کے بعد چھان بین کے لیے کمیٹیاں بنانے کا اعلان ضرور کرتی ہے۔ تاہم عمل درآمد نہیں ہوتا۔ الٹا سندھ ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور ٹریفک پولیس کو مال کمانے کا بہانہ مل جاتا ہے۔