امت رپورٹ:
عمران خان لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان آج اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھ کر کریں گے۔ یاد رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی پچھلے خاصے عرصے سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی دھمکیاں دیتے آرہے ہیں۔ تاہم وہ اس حوالے سے تاحال حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہیں۔ ’’امت‘‘ کے انہی صفحات پر رپورٹ کیا جا چکا ہے کہ حتمی تاریخ دینے میں تاخیر کے پیچھے فیس سیونگ کی کوششیں کارفرما ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو لانگ مارچ سے بچانے کے لیے ان کی پارٹی کے معتدل مزاج رہنما درمیان کا راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ پس پردہ جاری اس عمل میں صدر مملکت عارف علوی بھی رول ادا کر رہے ہیں۔ جس کے تحت کوشش کی جارہی ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے اتحادی حکومت سے، بھلے اگلے برس اسمبلیوں کی مقررہ مدت ختم ہونے سے چند ماہ پہلے کی تاریخ لے لی جائے۔ اس کے جواب میں عمران خان نا صرف فوری الیکشن کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ بلکہ لانگ مارچ بھی منسوخ کر دیں گے۔ لیکن ذرائع کے بقول اتحادی حکومت، چیئرمین پی ٹی آئی کو یہ فیس سیونگ دینے پر تاحال آمادہ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں عمران خان کے پاس مجبوراً لانگ مارچ کرنے کے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کے بیشتر اعتدال پسند رہنما بھی لانگ مارچ سے بچنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں ملک پہلے ہی معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، ایسے میں لانگ مارچ جیسے ایڈونچر سے سیاسی و معاشی بحران بڑھ سکتا ہے۔ پھر یہ کہ لانگ مارچ کے ذریعے اتحادی حکومت گرائے جانے کے امکانات بھی معدوم ہیں۔ جبکہ حکومت نے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لیے جو انتظامات کیے ہیں، اس کے نتیجے میں تصادم خارج ازامکان نہیں۔ ذرائع کے بقول لانگ مارچ کے بجائے گفت و شنید کے ذریعے اتحادی حکومت سے انتخابات کی تاریخ لینے کے خواہش مند انہی معتدل مزاج پی ٹی آئی رہنمائوں میں سے بعض بات چیت کے عمل میں شامل ہیں۔ لیکن اب تک ان پس پردہ کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ چنانچہ یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ آج اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد عمران خان لانگ مارچ کے لیے کسی حتمی تاریخ کا اعلان کر دیں۔ اس حوالے سے رواں مہینے اکتوبر کی کوئی تاریخ متوقع ہے۔
معروف صحافی انصار عباسی نے اپنے وِلاگ میں بھی کہا ہے کہ قبل ازیں بارہ ربیع الاول کے فوری بعد عمران خان نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم ضمننی الیکشن کے پیش نظر یہ فیصلہ مؤخر کر دیا گیا۔ اب عمران خان ضمنی انتخابات کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ وہ ان انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیں گے۔ اگر نتائج چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں آتے ہیں تو ضمنی الیکشن کے نتائج والے روز یا اس کے اگلے دن عمران خان لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دے سکتے ہیں۔
’’امت‘‘ کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ عمران خان ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ فیس سیونگ کے حوالے سے اتحادی حکومت کی جانب سے تاحال مثبت سگنل نہ ملنے پر وہ مایوس ہیں۔ جبکہ لانگ مارچ کی تاریخ دینے میں مسلسل تاخیر کے سبب پارٹی کے ووٹرز و سپورٹرز میں بے چینی اور غیر یقینی بڑھتی جارہی ہے۔ اس لیے چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس اب لانگ مارچ کی تاریخ دینے کے علاوہ آپش نہیں بچا ہے۔ لہٰذا پارٹی کے حالیہ اجلاسوں میں طے کیا گیا ہے کہ ضمنی الیکشن کے بعد لانگ مارچ کی کوئی تاریخ دے دی جائے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کا خیال ہے کہ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دیے جانے کے باوجود بھی پس پردہ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے حتمی تاریخ کے اعلان پر دبائو میں آکر اتحادی حکومت اپنے مؤقف میں لچک پیدا کر لے۔
اگرچہ عمران خان کو ضمنی انتخابات میں اپنی کامیابی کا یقین ہے، اور وہ قومی اسمبلی کی آٹھ سیٹوں میں سے سات پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ تاہم مبصرین کے خیال میں بعض حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی کی تین، مجموعی طور پر گیارہ نشستوں پر آج اتوار کو تین صوبوں سندھ، پنجاب اور خیبرپختون میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں۔
سندھ میں کراچی کے دو اضلاع ملیر اور کورنگی میں ضمنی انتخابات کے لیے کسی پارٹی کی جانب سے موثر انتخابی مہم دیکھنے میں نہیں آئی۔ این اے 239 کے حلقے میں اگرچہ دو درجن کے قریب امیدوار ضمنی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تاہم اصل مقابلہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار نیئر رضا کے مابین متوقع ہے۔ جبکہ حلقہ 237 میں پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ اور عمران خان کے درمیان میچ پڑے گا۔ کراچی کے ان دونوں حلقوں میں پولنگ کے موقع پر چھ ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گیے ہیں۔ مدد کے لیے رینجرز موجود ہوں گے۔ جبکہ کوئیک رسپانس فورس کے طور پر پاک فوج کے دستوں کو بھی اسٹینڈ بائی رکھا گیا ہے۔
پنجاب میں این اے ایک سو اٹھارہ ننکانہ صاحب میں عمران خان کی انتخابی مہم سابق وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے چلائی۔ اس حلقے میں چیئرمین پی ٹی آئی کے مقابلے میں نون لیگ کے امیدوار شیذرا منصب علی میدان میں اترے ہیں۔ مبصرین کے بقول اس سیٹ پر عمران خان کو یہ ایڈوانٹیج بھی حاصل ہے کہ حلقے میں سکھ ووٹروں کی اکثریت ان کے حق میں ہے، جو کرتارپور راہداری کا کریڈٹ چیئرمین پی ٹی آئی کو دیتی ہے۔ تام این اے ایک سو آٹھ فیصل آباد میں عابد شیر علی اور عمران خان کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ جبکہ اسی طرح کے مقابلے کا امکان این اے ایک سو ستاون ملتان کے حلقے میں بھی ہے۔ جہاں شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی پی ٹی آئی کی امیدوار ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی ان کے مدمقابل ہیں۔ ملتان کی سیاست پر شاہ محمود قریشی کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ جبکہ یوسف رضا گیلانی بھی شہر کی سیاست میں کلیدی رول ادا کرتے چلے آئے ہیں۔ ذرائع کے بقول آج کے ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادے کو پی ٹی آئی کے باغی رہنما جہانگیر ترین کی سپورٹ حاصل ہو گی، ملتان کی سیاست میں جن کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
خیبرپختون میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں بھی دلچسپ مقابلہ متوقع ہے۔ مردان کے حلقہ این اے بائیس میں ضمنی الیکشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدار مولانا محمد قاسم، عمران خان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ یہ سیٹ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان کے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی۔ این اے چوبیس چارسدہ سے عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کے صاحبزادے ایمل ولی خان میدان میں اترے ہیں۔
اے این پی کا دعویٰ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایمل ولی خان کو اپنی جیت کا اس قدر یقین ہے کہ انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے ضمنی انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش پر حکومتی اتحاد سے نکل جانے کی دھمکی دے دی تھی۔ صرف چارسدہ ہی نہیں اے این پی، این اے اکتیس پشاور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی کامیابی کی امید رکھتی ہے۔ جہاں اصل مقابلہ اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور اور عمران خان کے مابین ہورہا ہے۔ پشاور کی میئر شپ پہلے ہی جے یو آئی کے پاس جا چکی ہے۔ لہٰذا اے این پی اپنے سیاسی مرکز پشاور سے ہر صورت سیٹ جیتنے کی خواہش مند ہے۔