عمران خان:
بیرون ملک سے آنے والے اسمگلنگ کے سامان کی بین الصوبائی ترسیل کیلئے نجی کوریئر کمپنیوں کے استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔ نجی کوریئر کمپنیاں کسٹمرز اور کاروبار بڑھانے کی باہمی مسابقت میں قوانین نظر انداز کرنے لگیں۔ کسٹمز انٹیلی جنس نے بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کر دیں۔ ملوث کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کی کارروائی کی سفارشی رپورٹ مرتب کرنے کیلئے کام شروع کردیا گیا ہے۔
محکمہ کسٹمز کے مختلف کلکٹریٹس اور ڈائریکٹوریٹس میں اسمگلنگ کے درج ہونے والے کیسز کی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ بیرون ملک سے اسمگل ہوکر آنے والے سامان کو کئی گروپوں نے اندرون ملک ترسیل کیلئے اپنی گاڑیوں اور کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹوں کی لاجسٹک ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے بجائے نجی کوریئر کمپنیوں کی سروس کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ نجی ٹرانسپورٹرز کمپنیوں پر متعلقہ اداروں کی نگرانی کی وجہ سے ان میں سے اکثر سامان پکڑ لیا جاتا ہے۔ جبکہ کوریئر کمپنیوں کی بہتر ساکھ، نئی چمکیلی گاڑیوں اور ان کے رجسٹرڈ برانڈ ناموں سے مزین کنٹینرز سے اکثر اوقات اداروں کے افسران صرف نظر کر جاتے ہیں اور ان کی تلاشی لینے یا ان کے ڈرائیورز سے متعلقہ سامان کی دستاویزات طلب کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر اسمگلروں کے نیٹ ورک ان نجی کوریئر کمپنیوں کی سروس استعمال کرنے لگے ہیں۔ جس کے لئے اسمگلروں کے کارندے ان نجی کوریئر کمپنیوں کو ان کی طے شدہ فیس سے کچھ زیادہ رقم بھی ادا کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب ان نجی کوریئر کمپنیوں کے درمیان بھی ایک دوسرے سے کسٹمرز ہتھیانے اور ہر قسم کے سامان کی ترسیل کیلئے اپنی سروس فراہم کر کے کاروبار میں اضافہ کرنے کی کشمکش جاری ہے۔ جس کے لئے ان کمپنیوں کے مالکان نے مقامی مارکیٹ سے ایسے بزنس اور مارکیٹنگ منیجر تلاش کر کے بھاری تنخواہوں پر رکھنا شروع کر دیئے ہیں جو اپنے ساتھ دوسری نجی کوریئرز کمپنیوں کے گاہک لاتے ہیں۔ یہی منیجر اسمگلروں کو قوانین کو بالائے طارق رکھتے ہوئے سامان کی ترسیل کی سروس فراہم کرنے کے لئے معاملات طے کرتے ہیں۔
کسٹمز حکا م کے مطابق ملک میں بلک کارگو یعنی زیادہ مقدار میں سامان کی ترسیل کیلئے نجی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی طرح ہی نجی کوریئرز کمپنیوں کیلئے بھی قوانین موجود ہیں۔ جس کے تحت ان کی گاڑیوں کے ڈرائیور اس بات کے پابند ہیں کہ اگر راستے میں انہیں کسٹمز یا دیگر متعلقہ اداروں کے افسران تلاشی کیلئے روکیں اور جانچ پڑتال کیلئے دستاویزات طلب کریں تو ان کے پاس سامان کی قانونی درآمد، کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس ادائیگی کی رسیدیں اور درآمد کنندہ کی تفصیلات موجود ہونی ضروری ہیں۔ تاکہ سامان کے قانونی ہونے کی تصدیق کی جا سکے۔ اسی طرح سے ان نجی کوریئر کمپنیوں کے گوداموں میں ترسیل کیلئے موجود سامان کے حوالے سے بھی یہ تمام دستاویزات موجود ہونا لازمی ہیں۔ تاکہ متعلقہ افسران چھان بین کرنے آئیں تو انہیں فراہم کی جاسکیں۔ تاہم کاروبار بڑھانے کی غرض سے ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
کسٹم حکام کے بقول ڈائریکٹر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی ثاقب سعید کی ہدایات پر ڈپٹی ڈائریکٹر انٹیلی جنس (اے ایس او) انعام اللہ وزیر کی سربراہی میں کپڑے، الیکٹرانک، تیل، خوردنی سامان، کاسمیٹکس وغیرہ کے اسمگلرز کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا گیا ہے۔ جس میں سر فہرست کپڑے کی اسمگلنگ کو رکھا گیا ہے۔ کیونکہ اس وقت غیر ملکی سوٹنگ فینسی کلاتھ سمیت دیگر اقسام کی کپڑے کی اسمگلنگ سے ایک جانب ملکی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کے محصولات سے محروم کیا جا رہا ہے۔ دوسر ی طعف مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی خاص طور پر بھارتی اوریجن کے گرے فیبرک کی اسمگلنگ شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ ہفتے کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ کراچی کی ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے پی ای سی ایچ ایس کے بنگلے میں قائم نجی کوریئر کمپنی کوریئر ایکس (courier-x)کے گودام پر چھاپہ مار کر 5 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا غیر ملکی اسمگل شدہ قیمتی کپڑا برآمد کرلیا۔ اس کیس میں مقدمہ درج کرکے اسمگلنگ میں ملوث ٹرانسپورٹر، گودام مالک اور کپڑے میں سرمایہ کاری کرنے والے ملزمان کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ کسٹمز حکام کے مطابق گودام پر کارروائی سے قبل موصول ہونے والی اطلاع پر کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیم نے9 اکتوبرکو ٹرک رجسٹریشن نمبر No.JW-9523 کو روک کر اس پر موجود اسمگلنگ کے کپڑے سے لدا ہوا 20 فٹ کنٹینر ضبط کیا۔ بعد ازاں ڈرائیور سے تحقیقات کی گئیں تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ مذکورہ کپڑا پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی بلاک 6 میں کوریئر کمپنی کے ایک گودام سے لوڈ کر رہا تھا۔ جس پر مجسٹریٹ سے تلاشی کا اجازت نامہ حاصل کر کے کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیم نے گزشتہ روز مذکورہ گودام پر چھاپہ مار کر مزید اسمگلنگ کا کپڑا ضبط کرلیا۔ کسٹمز انٹیلی جنس کے حکام کے مطابق دونوں کارروائیوں میں ب آمد ہونے والے کپڑے کی مالیت 5 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ جس میں فینسی پردے، سوٹنگ کلاتھ کے ساتھ زنانہ اور مردانہ کپڑے کی بڑی مقدار شامل ہے۔
کسٹمز حکام کے مطابق اس سے قبل دو برس کے دوران کسٹمز انٹیلی جنس، کسٹمز انفورسمنٹ ایئرپورٹ کراچی کلکٹریٹ اور اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن کی درجنوں کارروائیوں میں ٹی سی ایس، ڈی ایچ ایل، لیوپرڈ اور فیڈیکس سمیت دیگر نجی کوریئرز کمپنیوں کے گوداموں، گاڑیوں اور پارسلز سے کروڑوں روپے مالیت کا اسمگلنگ کا سامان برآمد ہوچکا ہے۔ ان مقدمات میں کمپنیوں کی انتظامیہ کو نامزد کرکے تحقیقات شروع کی گئیں۔ تاہم ان میں نہ تو کوئی گرفتاری ہوئی اور نہ ہی ذمے دار کا تعین کیا جا سکا۔ تاہم حالیہ کارروائی کے بعد نجی کوریئر کمپنی کو نامزد کر کے ملوث کمپنیوں کے حوالے سے وسیع تحقیقات کے بعد ان کے لائسنس منسوخ کرنے کی کارروائی کی سفارشاتی رپورٹ مرتب کرنے کیلئے کام شروع کر دیا گیا ہے۔