شاہ رخ جتوئی کی بریت پر لہو رلانے والی تحریر
کہتے ہیں دیت کے بعد کیس ختم ہوا۔ انسانی جان کے خاتمے کے اس کیس کے ساتھ رجحان سازی کا گہرا تعلق بن چکا۔ اس حوالہ سے ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ کیا عدالت نے ان سارے پہلوؤں کو سامنے رکھا ؟ اس خاندان کے کیس کے دوران روئیے اور اطوار کو نوٹ کیا اور اس کے ممکنہ اثرات کو پیش نظر رکھا ؟
میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے۔
دیت ایک علامت ہے۔ شرمندگی اور افسوس کی۔ تصویر سفاکی اور بے حیائی اور اقدار کی پامالی کا عنوان ہے۔
تصویر مظلوموں کے دلوں پر ضرب ہے۔ تصویر انسانوں اور انسانیت کی بے بسی کا چنگھاڑتا اعلان ہے۔ تصویر استہزاء ہے۔ سماجی اقدار کا۔ باپ کے فرائضِ تربیت اور احساس ذمہ داری کا۔جنت اپنے قدموں تلے رکھتی ماں کی گود کی تربیت کا۔
تصویر نوحہ ہے۔ تصویر ماتم ہے۔ تصویر نوشتہ دیوار ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر احساس ذمہ داری عنقا ہوئی۔
تصویر قہقہہ ہے۔ سفاکی کی فتح پر جشن کا۔
تصویر لاپرواہی کا عنوان ہے۔ تصویر بے حسی کا عکس ہے۔ تصویر پتھر دلوں کا کیمرے کے ہاتھوں حفظ ہے۔ تصویر وڈیرے کی حویلی میں لٹکے گی۔ اور اس وڈیرے کی موت کے فرشتے کی آمد سے پہلے پہلے غفلت اور تکبر کی پرورش کی گواہی دیتی رہے گی۔ یہ نسلوں کی ایک منفرد سماجی اقدار کی حامل تہذیب کی تعلیم کی یونیورسٹی کا کام کرے گی۔
تصویر ہی آئین پاکستان کہلائے گی اور تہتر سے سسکتے کاغذ کے ٹکڑے کو ایذا پہنچاتی رہے گی۔
تصویر کی پچھلی جانب آہیں بھرتی پاکستانی غریب عوام کی نہ کھینچی جا سکتی تصویر چھپی رہے گی۔ جب تک کوئی قاطع برہان اندھیروں کو چیر کر روشنی کا در وا کرے گا۔ انسانوں کو آزاد اور درندوں کو پابند کرے گا ۔
تب تک ان ٹوپیوں اجرکوں شملوں اور رعب دار چہروں اور دبدبوں کے سامنے عوام کو ناچنے دیں۔ خاندانوں اور جنونی تقریروں پر حال ڈالنے دیں۔ کہ یہ اسی حد تک آزاد ہیں۔ کہ انتخاب کریں کہ اس ہاتھ سے تھپڑ کھانا ہے یا اس ہاتھ سے ۔ ان کی مرضی۔ ان کا انتخاب ۔ ان کی خوشی۔ تیر بجاں ۔ ہلے ۔ جیوے جیوے ۔ وجن گے۔ بنے گا نیا ۔۔
یہی فی الحال پاک سر زمین کا نظام ہے۔ عوام ناشاد ہیں تو کیا؟ قوت خواص کی اور اخوت بالادستوں کے درمیان ۔
باقی کی پگ نوں لگ گیا داغ۔ قوم ملک اور سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجاتا یہ نظام پرچم ستارہ و ہلال کو اسی شاہ رخ جتوئی کی استہزائیہ نگاہوں سے دیکھتا جائے گا۔ تا آنکہ سوتے عوام جاگ جائیں ۔ گہری نیند سے بیدار ہوجائیں اور اپنی بے عزتی خود کرتے رہنے سے بیزار ہو جائیں اور ایک لمحے کو سوچیں اور پکار کو سنیں
فاّین تذھبون