نمائندہ امت:
حویلیاں میں ٹی ایل پی کے کارکنان اور پولیس میں تصادم کے بعد علاقے میں اب بھی خوف و ہراس قائم ہے۔ پولیس نفری اور کھڑے کیے گئے کنٹینر اب بھی موجود ہیں اور تحریک لبیک کے کارکنان بھی دھرنا ختم کرنے پر تیار نہیں۔ جبکہ تحریک لبیک پاکستان نے آج اپنا شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ادھر ٹی ایل پی کے امیر حافظ سعد رضوی کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ میلادالنبی کا جلوس متنازعہ چوک سے بہت پیچھے اور رخ بھی دوسری طرف تھا۔ پھر بھی سیدھی گولیاں برسائی گئیں۔
خیبر پختون حکومت کے معاون خصوصی اطلاعات کا کہنا ہے کہ ’’صوبائی حکومت نے حویلیاں چمبہ پل کے مقام پر ٹی ایل پی کے جلوس کے دوران ناخوشگوار واقعے کا نوٹس لے کر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جو جلد تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ پیش کرے گی‘‘۔ تاہم حویلیاں میں ہونے والے واقعے کے بعد سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک پرامن جلوس ختم ہو چکا تھا اور لوگ واپس جارہے تھے۔ اس پر شیلنگ اور سیدھی فائرنگ کیوں کی گئی۔ اس حوالے سے امیر تحریک لبیک نے ایک انٹرویو میں کہا ’’ہمیں تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کون سی تحریک انصاف ہے۔ جس کی حکومت میں ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔ ہم تو گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ کون سا احتجاج کر رہے تھے۔ احتجاج ہوتا تو یہ خدانخواستہ ہم پر بم مار دیتے۔ کون طاقتور قوتیں ہیں جو ہمارے پرامن جلوس پر بکتر بند گاڑیوں سے سیدھی گولیاں برساتی رہیں۔ ہمارے کارکنان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔ گزشتہ رات آپ دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ ہم کسی جنگل کے قانون کے تحت رہ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا ہمارے اوپر جنگلی لوگ حملہ آور ہوگئے ہیں۔ ہم سے کسی پارٹی کو کوئی ڈر نہیں ہے۔ بلکہ ہر اس شخص کو ڈر ہے جو چاہتا ہے کہ وہ دھونس دھاندلی کے ساتھ اس ملک پر راج کرے گا۔ اور وہی تحریک لبیک کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ تحریک انصاف کے پاس احتجاج کے لیے آٹھ گھنٹے گزارنے کے لیے لوگ نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کا پلان یہ ہے کہ لبیک والوں کی اسٹریٹ پاور زیادہ ہے۔ انہیں سڑکوں پر نکالا جائے اور ان کے ساتھ ہم بھی نکل سکیں۔ وہ بے شک سیاست کریں۔ ہم ان کا مقابلہ سیاسی میدان میں کریں گے۔ لیکن میلاد النبی کے جلوس پرگولیاں برسانا تحریک انصاف کا کون سا انصاف ہے؟۔
ذرائع کے مطابق حویلیاں میں اب بھی لوگ خوف زدہ ہیں اور ابھی تک کنٹینر موجود ہیں۔ جن سے سڑک کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ تحریک لبیک کے لوگ بھی ابھی تک وہاں پر موجود ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے ماحول کو خود خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ فریقین کے درمیان جو معاملہ مذاکرات سے حل ہوسکتا تھا۔ اسے گولیوں اور شیلنگ سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر مستزاد مسالک میں ہم آہنگی کے بجائے نفرتیں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ حویلیاں پرامن علاقہ ہے اور 1997ء کے معاہدے کے بعد یہاں پر کسی قسم کا کوئی تنازعہ نہیں ہوا تھا۔ گزشتہ برس بھی انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے تنازعہ ہوا اور اب جبکہ ٹی ایل پی نے عدالت سے میلاد النبی کے جلوس کی اجازت لے لی تھی تو پھر پرامن طریقے سے وہ لوگ واپس جارہے تھے تو جانے دیتے۔ اگر وہ مقررہ روٹ پر نہیں جارہے تھے تو ان سے مذاکرات کرکے انہیں ان کے مقررہ روٹ پر بھیجا جاسکتا تھا۔ لیکن ان سے گولی کی زبان میں بات کی گئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ آگ صوبائی حکومت کی آشیر باد سے بھڑکائی گئی ہے۔ کیونکہ صوبائی حکومت ابھی تک اس معاملے کو اس طرح سنجیدہ نہیں لے رہی جیسے لینا چاہیے تھا۔ بعض مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ عارضی مذاکرات ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ٹی ایل پی کے کارکنان یہاں موجود ہیں، اور انتظامیہ بھی الرٹ ہے۔ فریقین کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کا پائیدار، جامع اور مستقل حل نکالیں۔ تاکہ یہاں کے لوگ خوف و ہراس کے دائرے سے باہر نکل سکیں۔
ادھر تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد رضوی نے لاہور مرکزی آفس میں ہنگامی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ’’ہم اس متنازعہ چوک اور بازار سے تین کلومیٹر پیچھے اپنا جلوس ختم کرکے جارہے تھے کہ ہمارا راستہ بند کرکے پیچھے سے ہم پر فائرنگ کی گئی۔ تحریک لبیک کے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ تیس بور کے دیسی پستول سے گولیاں ماری گئیں اور بڑی بندوقوں کا بھی استعمال کیا گیا۔اس پر مستزاد یہ کہ جن لوگوں کو شہید کیا گیا۔ انہی پر ایف آئی آر بھی کاٹی گئی۔ میں اس موقع پر ملک کے تمام مقتدر حلقوں سے سوال کرتا ہوں کہ ہمیں راستہ بند کرکے کس جرم میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ میں وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف، چیف جسٹس، وزیر داخلہ سمیت ہر ذمہ دار سے سوال کرتا ہوں کہ ہمارا قصور کیا تھا کہ ہمیں ٹارگٹ کرکے مارا گیا۔ جھوٹا پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ ہم حویلیاں کے متنازعہ چوک پر جانا چاہتے تھے۔ ہم توچوک سے بھی پیچھے جلسہ ختم کر چکے تھے۔ ہماری مقامی قیادت سے طے ہو چکا تھا کہ ہمارا روٹ کون سا ہوگا۔ جہاں دفعہ 144 نافذ تھی ہم اس سے بہت پیچھے پروگرام ختم کرکے واپس جارہے تھے۔
تنازع تو حویلیاں بازار جانے پر تھا اور وہاں تک تو ہمارے کارکنان گئے ہی نہیں۔ اگلے لائحہ عمل کے لیے ہم نے شوریٰ کا اجلاس بلا لیا ہے۔ اس کے بعد ہم اعلان کریں گے کہ ہم نے آگے کیا کرنا ہے۔ باقی کہا جاتا ہے کہ آپ عدالت کیوں نہیں جاتے۔ ہمارے تین کارکن شہید ہوئے، اور تیرہ گولیوں سے زخمی ہیں۔ ہم صبح سے مجسٹریٹ سے کہہ رہے کہ ہمارے ایک شہید کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے کی اجازت دیں۔ جو ابھی تک نہیں دی جارہی تو پھر آگے کیا توقع رکھیں؟ اس جلوس کی اجازت بھی ہم نے باقاعدہ پشاور ہائی کورٹ سے لی تھی۔ پھر سب نے دیکھا کہ کیا ہوا‘‘۔
دو روز قبل بھی ٹی ایل پی کے چار شہدا کی نمازہ جنازہ ادا کرنے کے بعد امیر تحریک لبیک سے پوچھا گیا کہ آپ ان کی موت پرعدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ تو سعد رضوی کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں آج تک کسی شہید کی موت کا کسی نے حساب دیا گیا ہے؟ ہم اپنے استغاثے عدالتوں میں لے کر گئے ہیں۔ سب ثبوت لے کرگئے ہیں۔ کیا ہوا؟ یہ نظام ہمیں انصاف دے گا، جو واپس گھر جاتے ہوئے بندوں پر سیدھی فائرنگ کرتا ہے؟ اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب جس کا دل چاہتا ہے اٹھا کر لے جاتا ہے۔ یہاں ہمارے خون کی کوئی قیمت ہے اور نہ ہی جان و مال کی۔ ان شہدا کا جرم بتائیں کہ انہوں نے کیا کیا ہے کہ انہیں سیدھی گولیاں ماری گئیں۔ تحریک لبیک والوں کا جرم یہی ہے کہ وہ محب وطن ہیں؟ اتنا ارزاں خون دنیا میں کسی کا نہیں ہوگا۔ جتنا تحریک لبیک اور اس تحریک سے وابستہ لوگوں کا ہے۔ جس کا جب جہاں جی چاہتا ہے، کے پی کے ہو، اسلام آبا ہو، لاہور ہو یاوزیر آباد، وہ جتنی چاہے لاشیں گرا دیتا ہے۔ خدا خبر یہ کس کو خوش کرتے ہیں؟ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ لبیک کے ایک شخص کی ذرا سی بھی غلطی نہ تھی۔ وہ جلوس کے بعد گھر لوٹ رہے تھے۔ انہیں گولیاں مارنے کا مطلب کیا ہے؟‘‘۔