مالیاتی ایمرجنسی ریاست کیلیے نقصان دہ ہوگی-فائل فوٹو
مالیاتی ایمرجنسی ریاست کیلیے نقصان دہ ہوگی-فائل فوٹو

’’پیپلز پارٹی6ماہ تک بلدیاتی انتخابات کا التوا چاہتی ہے‘‘

ارشاد کھوکھر:
صوبائی اور وفاقی حکومت کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے تیسری بار کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیئے ہیں۔ انتخابات کی نئی تاریخ کا اعلان 14 دن کے بعد الیکشن کمیشن کے ہونے والے اجلاس میں متوقع ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بلدیاتی انتخابات مزید 6 ماہ تک ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ اس دوران ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت، سیوریج سسٹم کو بہتر بنانے سمیت دیگر ترقیاتی کاموں پر فوکس کیا جائے گا۔ اور اس دوران نومبر میں اہم تقرری کا مرحلہ بھی گزر چکا ہوگا۔ جس کے بعد آئندہ عام انتخابات کیلئے بھی صورتحال واضح ہوگی۔ فوری بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ متحدہ قومی موومنٹ کو بھی ممکنہ شکست کا خوف ہے۔ بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرانے کے معاملے میں ایم کیو ایم بھی صوبائی حکومت کی ہمنوا بنی ہوئی ہے۔ انتخابات ملتوی کرانے کے لئے جو سب سے بڑا جواز پولیس نفری کی کمی کا گھڑا گیا ہے۔ اس میں بظاہر کوئی صداقت نظر نہیں آرہی۔ کیونکہ اندرون سندھ کے کئی اضلاع میں سیلاب کی صورت حال پہلے والی نہیں رہی۔ جہاں سے پولیس نفری کو طلب کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ متحدہ کے مطالبے پر بلدیاتی اداروں کے اختیارات بڑھانے کے حوالے سے صوبائی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کرنے کا قانونی مسودہ بھی تیار کرلیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت آئندہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو دیئے جانے والے اختیارات ضرورت پڑنے پر واپس لینے کا آپشن بھی اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سندھ کے اندر دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا الیکشن کمیشن نے آغاز مئی 2022ء سے شروع کیا۔ پہلے مرحلے میں سندھ کے 4 ڈویژن سکھر، لاڑکانہ، بے نظیرآباد اور میرپور خاص کے 14 اضلاع میں 26 جون کو بلدیاتی انتخابات ہو چکے۔ دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے تمام 16 اضلاع میں 24 جولائی کو بلدیاتی انتخابات ہونے تھے۔ لیکن اس دوران مون سون کی شدید بارشوں کے باعث صوبائی حکومت کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے 28 اگست تک بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیئے تھے۔ پہلی بار بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا جو جواز پیش کیا گیا وہ کسی حد تک درست تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا سبب صرف بارشیں نہیں بلکہ 17 جولائی کو قومی اسمبلی کی تقریباً 19 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے جو نتائج آئے، اس کا خوف بھی تھا۔ بعد ازاں حیدر آباد ڈویژن میں سیلاب کی صورتحال کے باعث مذکورہ ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کو التوا میں رکھ کر الیکشن کمیشن نے 23 اکتوبر کو کراچی ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ کیونکہ کراچی ڈویژن میں سیلاب اور بارشوں وغیرہ کی صورتحال معمول پر آچکی تھی۔ لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ کی اعلیٰ قیادت کو بھی بلدیاتی انتخابات کے نتائج ممکنہ طور پر اپنے حق میں نظر نہیں آرہے تھے۔ اس لئے حکومت سندھ نے 11 اکتوبر سے بلدیاتی انتخابات ایک بار پھر ملتوی کرانے کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرلیا۔ تاہم 16 اکتوبر کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے متحدہ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو مزید خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی مہم کے حوالے سے جماعت اسلامی سب سے زیادہ متحرک رہی ہے اور اس نے انتہائی موثر انداز میں انتخابی مہم چلائی ہے۔ جبکہ اس حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم اس زور و شور سے نظر نہیں آرہی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کی بھی انتخابی مہم میں زیادہ دلچسپی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بظاہر اس مرتبہ بھی الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات تین ماہ کیلئے ملتوی کرنے کی درخواست دی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت بلدیاتی انتخابات 6 ماہ تک ملتوی کرانا چاہتی ہے۔ تاکہ اس دوران انہیں کراچی شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے کا موقع مل سکے۔ کیونکہ اس وقت شہر کی جو حالت زار ہے۔ اس سے شہریوں میں حکومت کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ کی قیادت یہ بھی سمجھتی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج سامنے آئیں گے۔ ان کے اثرات یقیناً آئندہ قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر بھی پڑیں گے۔ اور اس حوالے سے نومبر کے مہینے میں ہونے والی اہم تقرری کا بھی انتظار کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد یہ صورتحال واضح ہوجائے گی کہ آئندہ انتخابات کب ہوں گے اور سیاسی صورتحال کس کروٹ بیٹھے گی۔
حکومت سندھ کے اعلیٰ سطح کے انتظامی ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کیلئے بلدیاتی انتخابات کے سیکورٹی پلان پر عملدرآمد کیلئے پولیس نفری کی کمی کا جو جواز پیش کیا ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ سیکورٹی پلان کے مطابق کراچی میں تقریباً 39 ہزار پولیس اہلکاروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی۔ جن میں سے 22 سے 23 ہزار پولیس اہلکاروں کی نفری کراچی میں موجود دکھائی گئی ہے۔ جبکہ باقی 16 ہزار پولیس اہلکاروں کی کمی کا جو جواز پیش کیا گیا ہے، وہ کمی اندرون سندھ کے کئی اضلاع سے پولیس کو طلب کرکے پوری کی جاسکتی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کی دلیل یہ ہے کہ اندرون سندھ سیلاب کی صورتحال کے باعث ہنگامی حالات ہیں۔ اس صورتحال میں اندرون سندھ کے اضلاع سے پولیس نفری کو کراچی طلب نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اندرون سندھ میں جہاں تک سیلاب کی صورتحال ہے تو ابھی تک ضلع دادو، جامشورو، خیرپور، نوشہرو فیروزسمیت چند اضلاع ایسے ہیں جہاں ابھی بھی ہنگامی صورتحال ہے۔ تاہم تقریباً ایک درجن ضلع ایسے ہیں جہاں سے پولیس نفری کو طلب کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان اضلاع میں اب صورتحال کافی معمول پر آچکی ہے۔

ان اضلاع میں حیدرآباد، ٹنڈوالہ یار، ٹنڈومحمد خان، ٹھٹھہ، سجاول، تھرپارکر، میرپور خاص، گھوٹکی، سکھر، شکارپور، کشمور، لاڑکانہ، نواب شاہ، عمر کوٹ و دیگر اضلاع شامل ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت اپنے مطلوبہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے بلدیاتی انتخابات کا التوا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے بھی صوبائی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ کیونکہ جب الیکشن کمیشن کے پاس پولیس نفری کی کمی کی بات آئی تو الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت سے بھی رجوع کیا۔ لیکن سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے ایک پیج پر ہونے کے باعث وہاں سے بھی الیکشن کمیشن کو وفاقی وزارت داخلہ سے یہ جواب موصول ہوا کہ رینجرز اور دیگر آرمڈ فورسز کے جوان کوئیک رسپانس کیلئے تو موجود ہوں گے۔ لیکن پولنگ اسٹیشنز پر ڈیوٹی نہیں کرسکتے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات 6 ماہ تک ملتوی کرانے کے پیچھے یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ اگر عام انتخابات کیلئے 6 ماہ کے اندر ماحول سازگار بنتا ہے تو اس صورتحال میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد عام انتخابات کے بعد تک ملتوی ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو زیادہ سوٹ اس لئے کر رہی ہے کہ اس وقت تمام بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے کنٹرول میں ہیں۔ کیونکہ تمام بلدیاتی اداروں میں منتخب میئر اور چیئرمینز کی جگہ افسران، ایڈمنسٹریٹرز کی حیثیت میں تعینات ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت بھی بلدیاتی انتخابات کے التوا میں پیپلز پارٹی کی قیادت کی ہمنوا اس لئے بنی ہوئی ہے کہ متحدہ کی اس وقت صورتحال خود ڈانوا ڈول ہے۔ جس کی جھلک ضمنی انتخابات کے نتائج کی صورت میں آچکی ہے۔ جہاں تک بلدیاتی انتخابات کا تعلق ہے تو اس معاملے میں متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کراچی میں میئر کے عہدے پر اپنا اپنا امیدوار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان یہ رسہ کشی بھی شامل ہے۔ تاہم اس حوالے سے دونوں جماعتوں کی خواہش ہے کہ کراچی کے میئر کی سیٹ پر ان کے علاوہ کسی اور جماعت کا امیدوار نہ آئے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بلدیاتی حلقوں کے معاملے پر متحدہ کی قیادت کے تحفظات برقرار ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت کے ایما پر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے متحدہ کی خواہش پر ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے انتظامی اختیارات میئر کے کنٹرول میں دینے کیلئے آرڈیننس کے ذریعے بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کرنے کا قانونی مسودہ تیار کرلیا ہے۔ جس کی منظوری وزیر اعلیٰ سندھ دے چکے ہیں۔

آئندہ ایک دو روز میں مذکورہ آرڈیننس نافذ ہونے کا امکان ہے۔ مذکورہ آرڈیننس میں نہ صرف کراچی کے ترقیاتی ادارے، بلکہ حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی میئر کے زیر کنٹرول دینے اور سیوھن ڈویلپمنٹ اتھارٹی و چیئرمین ڈسٹرکٹ کائونسل جامشورو کے کنٹرول میں دینے کی ترامیم کی جائیں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں پہلے آرڈیننس کے مسودے میں کے ڈی اے کے ملازمین کی بھی کے ایم سی میں تعیناتی ہونے کی شق ڈالی گئی تھی۔ لیکن سندھ کے محکمہ قانون نے اس ترمیم کو قانون سے متصادم قرار دیدیا۔ جس کے بعد اس ترمیم کو ختم کیا گیا ہے۔ تاہم کے ڈی اے کا انتظامی کنٹرول بھی میئر کے حوالے ہوگا۔