ریلوے کا ڈرائیور کفارے کی خاطر اسی کنویں میں عبادت کرنا چاہتا تھا۔فائل فوٹو
 ریلوے کا ڈرائیور کفارے کی خاطر اسی کنویں میں عبادت کرنا چاہتا تھا۔فائل فوٹو

’’چوروں کا کنواں‘‘ خزانے کے متلاشیوں کا مرکزِ نگاہ

میگزین رپورٹ: پہلا حصہ
فجرکی اذان ہونے میں تقریباً دو گھنٹے باقی تھے۔ ہم مکلی کے قبرستان میں موجود پانچ سو سال قدیم اندھے کنویں میں اتر رہے تھے۔ کنویں کے ایک کونے پر لگا بیری کا درخت ہلکی ہلکی ہوا سے جھول رہا تھا۔ بیرونی دیوار کے ساتھ لگا درخت تقریباً پورا ہی کنویں کے اندر جھکا ہوا ہے۔ یہ بالکل وہی جگہ ہے جہاں سے سیڑھیاں شرع ہوکر کنویں کی اندرونی دیوار میں غائب ہو جاتی ہیں۔ میرے ساتھ آنے والا مقامی گائیڈ اظہر جوکھیو رسی تھامے کنویں کے باہر کھڑا تھا اور میں رسی کے ذریعے لٹک کر کنویں میں بنی سیڑھیوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ موبائل فون کی مدھم روشنی میں سب کچھ صاف نظر تو نہیں آرہا تھا۔ مگر پھر بھی گزارے کیلئے کافی روشنی تھی۔ اظہر جوکھیو بار بار اوپر سے آواز دے کر پوچھتا کہ سیڑھیوں تک پہنچ گئے ہو یا نہیں؟ مگر سیڑھیاں اب بھی کافی دور تھیں۔ کنواں چونکہ کافی گہرا تھا اور اس کے اندر ہی ایک اور چھوٹا کنواں بھی تھا۔ پھر کنویں کی دیواروں میں درجنوں کھڑکیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔

ان کھڑکیوں کے عقب میں کئی کمرے بھی تھے۔ اس وجہ سے آواز کافی دیر تک گونجتی رہتی۔ ایک بار جوکھیو بولتا اور کئی بار کنواں آوازیں بدل بدل کر اس کو دہراتا رہتا۔ کبھی کسی عورت کی آواز کبھی کسی بچے کی آواز اور کبھی مرد کی آواز۔ میرے منہ میں موبائل دبا ہوا تھا۔ اس وجہ سے جواب تو نہیں دے سکتا تھا۔ مگر ہر بار رسی کو تھوڑا سا جھٹکا دیتا۔ جس سے باہر رسی پکڑے مقامی گائیڈکو اندازہ ہوجاتا کہ ابھی تک میں سیڑھیوں پر نہیں پہنچا ہوں۔ اس طرح وہ رسی مزید ڈھیلی چھوڑتا اور میں کچھ انچ نیچے کھسک آتا۔ کنویں کی اندونی دیواریں کئی جگہ سے ادھڑی ہوئی تھیں۔ ان کی رگڑ سے جسم کئی جگہ سے چھل چکا تھا۔ سیڑھیاں ابھی کچھ دور تھیں کہ اچانک پائوں کے پاس کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی اور اس کے بعدکوئی چیز میری ٹانگ پر لپٹنے لگی۔ فوراً ہی یہ اندازہ بھی ہوگیا کہ کوئی سانپ پائوں سے لپٹ گیا ہے۔ اسے جھٹکنے کیلئے جب میں نے پائوں کو زور سے جھٹکا دیا تو اوپر سے ہی رسی ٹوٹ گئی اور میں سیدھا سیڑھیوں پر گر کر لڑھکتا ہوا کنویں کی دیوار میں بنے ایک خانے میں جا پھنسا۔ اوپر کھڑا گائیڈ زور زور سے آوازیں دے رہا تھا۔ مگر میرے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ موبائل منہ سے نکل کر دور جا گرا تھا۔ مگر اب تک اس کی ٹارچ جل رہی تھی۔ سانپ کا کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں گیا۔
یہاں آنے سے قبل مجھے اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ کنواں سانپوں سے بھرا ہوا ہے۔ کنویں کی تہہ میں بنے زیر زمین کمرے اور کھڑکیاں ان کی رہائش گاہ ہیں۔ اسی کنویں کے بارے میں ان تینوں جرمن سیاحوں سے کافی بات ہوئی تھی۔ جو دن میں یہاں گھومتے ہوئے ملے تھے۔ وہ تینوں بھی یہی چاہتے تھے کہ کنویں کے اندر اترا جائے۔ انہوں نے سانپوں سے بچنے کیلئے خصوصی انتظام کیا ہوا تھا۔ کان کنوں والی ٹوپیاں ان کی گاڑی میں رکھی ہوئی تھیں۔ ان ٹوپیوں کے آگے ٹارچ بھی نصب تھی۔ دو مردوں اور ایک عورت پر مبنی یہ گروپ ملائیشیا، بھارت اور بنگلہ دیش سے گھومتا ہوا پاکستان آیا تھا اور کئی دن سے مکلی کے قبرستان میں چکراتا پھر رہا تھا۔ میری جب ان سے بات ہوئی اور انہیں اسٹوری کے بارے میں پتا چلا تو وہ میرا پیچھا چھوڑنے پر رضامند نہیں ہوتے تھے۔ میں جہاں بھی جاتا وہ تینوں پیچھے پیچھے چلے آتے۔ ان کی گاڑی میں ریفریجریٹر نصب تھا اور یہ مختلف ٹن پیک فوڈ آئٹمز سے بھرا ہوا تھا۔

نجانے انہیں کس نے یہ بتایا تھا کہ کئی قدیم مقبروں کے نیچے خفیہ کمرے موجود ہیں۔ جہاں حنوط شدہ لاشیں ان کے زیر استعمال اشیا اور خزانے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تینوں ایسی ہی چیزوں کی تلاش میں بھارت کے مختلف مندروں، ملائیشیا کے قدیم پہاڑی غاروں اور بنگلہ دیش کے جنگلوں کی خاک چھانتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے اور اب یہاں مکلی میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ان کے جسموں سے عجیب سی بدبو آتی تھی اور مردوں نے بھی سنہرے بالوں کی چٹیا بنائی ہوئی تھی۔ شاید وہ قبرستان میں بنے اس قدیم کنویں میں اتر کر دیکھ چکے تھے یا پھر انہیں کسی مقامی چوکیدار نے بتایا تھا کہ کنواں سانپوں سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی یہ معلومات مجھ سے شیئر کرنا ضروری سمجھا۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ مل کر اس کنویں کی تلاشی لوں۔ دو افراد باہر کھڑے رہیں گے اور دو اندر جائیں گے۔ کنویں کی دیواروں میں بنے دروازے سے ایک شخص اندر جائے گا اور دوسرا باہر سیڑھیوں پر کھڑا رہے گا۔ وہ خود کنویں کے کمروں میں نہیں جانا چاہتے تھے اور کہتے تھے میں اندر کمروں میں جائوں گا۔ جبکہ ان کا ایک ساتھی باہر سیڑھیوں پر ٹارچ پکڑ کر کھڑا ہوگا۔ کنویں کی دیواروں میں بنی کھڑکیاں اور دروازے اتنے تنگ تھے کہ لیٹ کر اندر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

کنویں کے اندر جانے والی سیڑھیاں تقریباً دس فٹ گہرائی میں جاکر اچانک زمین میں گم ہوجاتی ہیں۔ یہاں سے اندر جانے کیلئے تین فٹ کا ایک کھڑکی نما دروازہ ہے۔ اس دروازے سے اگر کنویں کے کمرے میںکوئی داخل بھی ہونا چاہے تو لیٹے بغیر اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ ان جرمنوں کی لیڈر شاید خاتون تھی۔ وہی زیادہ انگریزی بھی جانتی تھی اور وہی سب کچھ طے کر رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر کنویں کے اندر سے کوئی چیز برآمد ہوئی تو وہ ہم آپس میں برابر تقسیم کریں گے۔ مقامی افراد کی خدمات کا معاوضہ بھی وہ خود ادا کرنے پر راضی تھے۔ مگر شرط یہ تھی کہ میں ان کے ساتھ کنویں کی تلاشی لوں۔ میں نے انہیں ٹالنے کیلیے قبرستان کے کئی چکر لگائے۔ مزاروں پر ملنگوں سے گپیں ہانکنے میں کئی گھنٹے لگائے۔ مگر وہ سکون سے بیٹھے انتظار کرتے رہے اور آخرکار ہم لوگ قبرستان سے باہر آگئے۔ سڑک کے دوسری طرف پہاڑ پر کالکان مندر بنا ہوا ہے۔ یہاں بھی عجیب اور پراسرار غار ہیں۔ میں نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ مندر میں موجود کوئی فرد معقول معاوضہ پر ہمارے ساتھ کنویں میں اترنے پر راضی ہوجائے گا۔ اس لئے ہم لوگ یہاں چلے آئے۔ مندر میں بڑے بڑے کڑے پہنے پیلے لباس میں موجود ایک پجاری ان لوگوں سے بات کرنے اور انہیں مندر کی سیر کرانے لگا۔

میرے لئے یہ وقت اچھا تھا کہ میں خاموشی سے وہاں سے کھسک آیا۔ چوروںکے کنویں کے نام سے مشہور مکلی کے اس قدیم کنویں میں اترنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر ریلوے کے ایک ڈرائیور نے اپنی بے بسی کی کچھ ایسی کہانی سنائی کہ اس کی مدد کرنے کیلئے کنویں کا رخ کرنا پڑا۔ ریلوے کے شیخ نامی اس ڈرائیور نے کئی قتل کئے تھے۔ وہ انہیں قتل ہی کہتا ہے۔ گو کہ حقیقت میں اس کا کوئی بھی قصور نہیں ہوتا۔ مگر اس کے باوجود شیخ کا کہنا تھا کہ وہ کئی بندے مار چکا ہے اور اب اسے اپنے اس گناہ سے پیچھا چھڑانا ہے۔ اسی مقصد کیلئے وہ مکلی کے قبرستان میں بنے عبداللہ شاہ اصحابی کے مزار پر بسیرا کئے ہوئے ہے۔ اس سے ہماری ملاقات کئی روز قبل ہوئی تھی اور اس رات عباس نے اس سے گھنٹوں باتیں کیں۔ صبح کے وقت جب ہم لوگ سونے کیلئے اٹھے تو دوستی پکی ہو چکی تھی۔ وہ اپنی زندگی کی تمام کہانی سنا چکا تھا اور ہم نے بھی اس کی پوری مدد کرنے کی ہامی بھرلی تھی۔ شیخ کا کہنا تھا کہ اسے پہلے ہی خواب میں بتا دیا گیا تھا کہ کوئی اچانک آئے گا اور اس کی مدد کرے گا۔ اب ہم لوگ آگئے ہیں اور ہمیں ہر حال میں اس کی مدد کرنا ہوگی۔ ریلوے کے اسی ڈرائیور کیلئے ہم لوگ اس کنویں میں اترے تھے۔ کیونکہ اسے کسی نے بتایا تھا یا پھر خود یہ اس کی اپنی ذہنی اختراع تھی کہ اسے کنویں کے اندر بنے کمروں میں بیٹھ کر ساری رات عبادت کرنا ہوگی۔ اس کے بعد ہی اس کے گناہ معاف ہو سکیں گے۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کئی بار کنویں کے اندر اتر چکا ہے۔ اندر سانپ موجود ہیں۔ مگر یہ سانپ کسی کو کچھ نہیں کہتے۔ اس لئے بے دھڑک چلے آنا۔ میں بھی اظہر جوکھیو کو لے کر بنے دھڑک چلا گیا۔ (جاری ہے)