عمران خان:
کراچی کے علاقے ماڑی پور میں ایک گودام پر چھاپے میں ضبط کیے 50 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے غیر ملکی ٹائروں کا کیس متنازعہ اسکینڈل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ تین ہفتہ قبل ٹائروں کی برآمدگی کے بعد درج مقدمہ میں گرفتار ملزمان سے اصل سرمایہ کاروں کا سراغ لگانے کیلئے تحقیقات ابھی شروع بھی نہیں تھی کہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی سرمایہ کار پارٹی نے از خود کسٹم پریونٹو حکام سے رابطہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی کسٹم پریونٹو کراچی کلکٹریٹ کے حکام کو وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی وزارت خزانہ سے بھی رسائی کروائی گئی۔ تاکہ مذکورہ ضبط سامان واپس کر کے مقدمہ ختم کیا جائے۔ سرمایہ کار کمپنی کا موقف ہے کہ یہ سامان قانونی اور درآمد شدہ ہے اور اس کی تمام دستاویزات موجود ہیں۔ ذرائع کے بقول کسٹمز پریونٹو اے ایس او کی اس کارروائی پر 10 لاکھ روپے سے زائد رقم کیس ہونے اور عدالت جانے تک خرچ ہوئی۔ جو ضائع ہونے کا امکان ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق کلکٹر انفورسمنٹ عثمان باجوہ کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ اسمگل شدہ ٹائرز کی بھاری مقدار ماڑی پور میں قائم ایک گودام میں چھپائے گئے ہیں۔ جس پر کلکٹرکی جانب سے ایڈیشنل کلکٹر محمد فیصل، اسسٹنٹ کلکٹر محمد فیضان عارف اور دیگرافسران و اہلکاروں پر مشتمل ٹیم نے گودام پر چھاپہ مارکر 54 کروڑ 11 لاکھ مالیت کے 56 ہزار سے زائد ٹائرز برآمد کیے گئے اور گودام پر موجود ملزم شاہ نواز خان کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا۔ بعد ازاں گودام کے مالک کو بھی مقدمہ میں نامزد کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ مذکورہ کارروائی کے بعد کلکٹر انفورسمنٹ عثمان باجوہ نے ایڈیشنل کلکٹر محمد فیصل کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ برآمد ہونے والے ٹائرز کی بڑی تعداد غیر معیاری تھی۔ جبکہ ملزمان کے پاس سیریل نمبر کی ڈائز تھیں۔ جن کے ذریعے ٹائرز پر موجودہ تاریخ اور سیریل نمبر لکھ کر انہیں فروخت کیا جاتا تھا۔ برآمد ہونے والے مختلف برانڈکے ٹائرز میں 22 کروڑ 50 لاکھ مالیت کے 45 ہزار ٹائرز، جبکہ 30 کروڑمالیت کے 10 ہزار بسوں کے ٹائرز ہیں۔ کسٹمز حکام کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج کرنے کے بعد ٹائرز اسمگلنگ میں ملوث اصل سرمایہ کار اور اسمگلر مافیا کے خلاف کارروائی کا دائرہ وسیع کرنے کیلئے تحقیقات شروع کی گئیں۔ چونکہ یہ تمام کارروائی ایڈیشنل کلکٹر محمد فیصل کی سربراہی میں انجام دی گئی تھی۔ اس لئے انہوں نے بھی پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹائروں کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اس بڑی کارروائی کے فوری بعد چیئرمین ایف بی آر اور ممبر کسٹمز آپریشن کو بھی رپورٹ ارسال کی گئی۔ جن کی جانب سے ٹیم کو سراہا گیا۔ تاہم ابھی تحقیقات شروع بھی نہ ہونے پائی تھی کہ کسٹمز پریونٹو کے متعلقہ افسران پر دبائو آنا شروع ہوگیا۔ ٹائروں کے گودام پر موجود سامان کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے اور گودام مالک کے بعد پنجاب کے علاقے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے ڈیلر کی جانب سے کسٹم حکام سے رابطہ کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ یہ کارروائی بالکل غلط کی گئی ہے۔ مذکورہ ٹائر قانونی طور پر خریدے گئے ہیں اور ان کی دستاویزات بھی موجود ہیں۔ تاہم کسٹمز پریونٹو کے افسران اپنی کارروائی کو درست قرار دینے پر مصر رہے۔ جس پر مذکورہ سرمایہ کار پارٹی کی جانب سے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب کسٹمز افسران نے گرفتار ہونے والوں سے تفتیش جاری رکھی اور بعد ازاں انہیں جیل کسٹڈی کر دیا گیا۔ اسی دوران وفاقی محکمہ داخلہ اور وفاقی محکمہ خزانہ کے حکام کی جانب سے بھی چیئرمین ایف بی آر اور ممبر کسٹمز آپریشن کے ذریعے پریونٹو کلکٹریٹ کراچی کے حکام سے رابطہ کیا گیا اور انہیں کارروائی کو ہر حوالے سے شفاف بنانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ یہ پیغام بھی دیا گیا کہ اگر کچھ کسٹمز افسران اور انفارمرز کی لاعلمی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے کارروائی میں غلطی ہوئی بھی ہے تو متاثرہ پارٹی کو ریلیف فراہم کیا جائے۔
بتایا گیا ہے کہ اس دوران ہائی کورٹ میں بھی سرمایہ کار پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن میں سامان قانونی ہونے کی استدعا کی گئی۔ جس پر معزز عدالت نے کسٹمز پریونٹو کے افسران کو ہدایات جاری کیں کہ اگر متاثرہ فریق سامان کے قانونی ہونے کی تمام دستاویزات پیش کرنے کو تیار ہے تو اس کی چھان بین کرکے معاملے کا تصفیہ کرلیا جائے اور سامان متاثرہ فریق کو واپس کردیا جائے۔ جس کے بعد اب یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ سامان متاثرہ فریق کو واپس کردیا جائے گا۔ تاہم اس تمام کارروائی پر کسٹمز پریونٹو کی جانب سے خرچ کیے گئے لاکھوں روپے ضائع ہوجائیں گے۔ جبکہ اس پر اعلیٰ حکام کے سامنے سبکی علیحدہ اٹھانی ہوگی۔
ذرائع کے مطابق کسٹمز کی تمام فیلڈ فارمیشنز کی جانب سے کیے جانے والے کیسز میں انتہائی احتیاط برتی جاتی ہے اور مکمل یقین دہانی پر چھاپے کے بعد کیس بنائے جاتے ہیں۔ کیونکہ چھوٹے سے چھوٹے کیس پر بھی کارروائی کیلئے ٹیم بھیجنے، ضبط سامان اٹھا کر لوڈ کرکے کسٹمز دفتر پہنچانے اور ملزمان کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے سے لے کر وکلا کی خدمات حاصل کرنے پر 4 سے 5 لاکھ روپے کے اخراجات ہوجاتے ہیں۔ جس میں مزدوروں کی اجرت کے علاوہ انفارمز کی قیمت بھی شامل ہوتی ہے۔ جبکہ بڑے کیسوں میں یہ مالیت 10لاکھ روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ مذکورہ کیس میں بعض خامیاں سامنے آنے کے بعد کسٹمز پریونٹو کراچی اے ایس او کی چھاپہ مار کارروائیوں میں انتہائی احتیاط شروع کر دی گئی ہے اور انفارمز اور ماتحت افسران کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ سو فیصد درست معلومات پر کارروائی کی جائے۔ جبکہ معاملات برعکس نکلنے پر کارروائی کرنے والوں کے خلاف بھی ایکشن لیا جا سکتا ہے۔