اخبار کی کاپی پریس بھجوا کر شادی کا سہرا پہنا ۔۔ عارف الحق عارف

 

‎ہماری منگنی ہوئے کوئی چھ ماہ کا عرصہ ہوگیا تھا۔ ساری تفتیش اور پوچھ تاچھ کا کام بھی دَم توڑ گیا تھا اور ہم ”مستند منگیتر“ قرار پا چکے تھے۔ برادر ِنسبتی اقبال انصاری کے گھر بھی آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ کبھی کبھی ہمیں کھانے پر بھی بلا لیا جاتا۔ لاہور والے بھائی خلیل شادی تک کراچی ہی میں رک گئے تھے۔ اب شادی کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اتفاق رائے سے شادی کی تاریخ 15مئی 1970 مقرر ہوئی۔ والد صاحب بھی کراچی میں موجود تھے۔ ہمارے ساتھ رہنے والے تمام ساتھی سوائے اے بی سعید کے، یکے بعد دیگرے جا چکے تھے پھر سعید بھی مئی کے شروع میں دوسری رہائش گاہ پر منتقل ہوگئے۔ شادی کی تاریخ طے ہونے کے ساتھ ہی اخباری صنعت میں تنخواہوں میں اضافے اور صحافیوں، کاتبوں اور پریس کے کارکنوں کے حالات ِ کار بہتر بنانے کی تحریک شروع ہوگئی۔ ہر روز دفتری کاموں کے ساتھ ساتھ پریس کلب یا کسی نہ کسی اخبار کے دفتر میں یا اُس کے سامنے احتجاجی جلسہ ہوتا، جس میں شرکت کرتے، نعرے لگاتے اور دفتر کے کام اور جلسے کے خاتمے پر گھر کی راہ لیتے۔ اِس کے ساتھ ہی ملک میں جنرل یحییٰ خان کی مارشل لا حکومت کے خلاف تحریک اور 1970 کے انتخابات کی مہم بھی شروع ہو چکی تھیں۔ سیاسی گہماگہمی عروج پر تھی۔ ساتھ ساتھ مزدوروں کی ٹریڈ یونین سرگرمیاں بھی انتہا پر تھیں۔ عدالتیں بھی فعال تھیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں حبس ِ بے جا اور دوسرے سیاسی مقدمات کی بھرمار تھی۔
‎اخبار نویسوں اور عامل صحافیوں کی اُجرت اور حالات ِ کار بہتر بنانے کی تحریک اور صحافی یونینز، کے یو جے، پی ایف یو جے اور ایپنیک کی جدوجہد منطقی انجام کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ یونین کے لیڈروں نے مالکان کی ہٹ دھرمی سے تنگ آکر یکم مئی سے اخبارات کی ہڑتال کا اعلان کردیا تھا، جس کے نتیجے میں پورے ملک (مغربی اور مشرقی پاکستان) میں سارے اخبارات کی اشاعت بند ہوگئی۔ ملک کی سیاسی جماعتیں اور ٹریڈیونینز پہلے ہی دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم تھیں۔ تقسیم کی یہ لہر صحافتی پیشہ ور تنظیموں میں بھی دَر آئی تھی، اس جلتی پر تیل کا کام مولانا بھاشانی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی صحافی رہنماؤں سے پیہم ملاقاتوں نے کیا۔ صحافی اور اخباری کارکن مسلسل ایک ہفتے سے اخبارات کی بندش سے پریشانی کا شکار تھے۔ اخبارات کے بعض مالکان اُجرت بورڈ کے مطابق تنخواہوں میں اضافے کے لئے بات چیت پر آمادہ بھی ہو گئے تھے، اُن میں جنگ کے مالک میرخلیل الرحمن بھی شامل تھے، لیکن پی ایف یو جے کی دائیں بازو والی قیادت اِس پر تیار نہیں تھی۔ وہ اِسے ہڑتال ناکام بنانے کی کوئی چال قرار دے رہی تھی۔ اِس پر اخباری کارکنوں اور اُس کی قیادت میں اختلاف رائے ہوا اور بائیں بازو کے صحافیوں نے اُس ہڑتال کو نیک نیتی کے ساتھ سوشلسٹ سیاست کا حصہ اور اُسے آ ئندہ کے انتخابات میں فائدہ پہنچانے کا شاخسانہ قرار دے کر 10 مئی کو ہڑتال کے خاتمے کااعلان کر دیا۔ چار صحافیوں نے، جن میں ہم بھی شامل تھے، اُس دن چار صفحات پر مشتمل روزنامہ جنگ تیار کرکے شائع کردیا۔ جس کو قارئین نے، جو گزشتہ دس دنوں سے ملک اور دنیا بھر کی خبروں سے محروم تھے، بہت پسند کیا۔ جنگ کے مالک اور ایڈیٹراِنچیف میر خلیل الرحمن نے ہماری مدد کے لئے اپنے دوست عبدالوحید خان کو بھی ہمارے پاس بھیج دیا تھا۔
‎آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت ہم پر ایک طرف تو اخبار میں کام کا دباؤ تھا اور دوسری طرف شادی میں چند ہی دن باقی رہ گئے تھے۔ اگرچہ شادی کی تیاری کا سارا کام اعجازشفیع گیلانی اور سعید عثمانی کی ماؤں یعنی باجی جان اور بیگم ڈاکٹر عثمانی نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ ہم نے کوئی ڈیڑھ دوہزار روپے دلہن کے زیور، ملبوسات اور دیگر چیزوں کے لئے ان کے حوالے کر دیئے،جو کہیں سے ادھار لئے تھے، ہمارے پاس اتنی بڑی رقم بھلا کہاں سے آسکتی تھی؟ ہم نے ولیمے اور دوسرے اخراجات کے لئے بھی مزید دوہزار روپے ادھار لئے تھے۔ اِس طرح شادی کے لئے ہم چار ہزار روپے کے مقروض ہو گئے تھے جو بعد میں قسط وار ادا کئے۔ اعجاز کی والدہ اور بہن غزالہ نے دلہن کے زیور کا ایک سیٹ اپنی طرف سے خریدا اور ایک سیٹ سعید عثمانی کی والدہ نے لیا۔ سونا اُس دَور میں ڈیڑھ سو روپے فی تولہ تھا۔ ہم نے والد صاحب اور اپنے لئے شیروانی اور کرتا شلوار سلوا لیا تھا۔ ہمارے سینئر ساتھی یونس ریاض کی کچھ عرصے پہلے شادی ہوئی تھی، اُن کے پاس دولہا کی پگڑی موجود تھی جو اُنہوں نے ہماری درخواست پر ہمیں دے دی تھی۔
‎ان حالات ِکار اور اِس مختصر سی تیاری کے ساتھ ہماری شادی کی تاریخ یعنی 15 مئی آن پہنچی۔ ہم اُس دن بھی دفتر گئے اور پورا دن کام کیا۔ ڈسٹرکٹ پیج کی ساری کاپیاں تیار کیں، فائنل کرنے کے بعد پریس بھجوائیں، اُس کے بعد گھر گئے۔ والد صاحب اور دوسرے دوست احباب منتظر تھے۔ ہم نے دولہا کا لباس پہنا تو برات بھی تیار ہوگئی۔ شادی کے انتظامات کی ذمے داری تین افراد نے لے رکھی تھی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اُن میں ہمارے پڑوسی ابومحمد، عبدالمتین انصاری اور اسرار الرحمن بھائی شامل تھے۔ ہمیں کسی بات کی اطلاع تھی اور نہ ہی کوئی فکر یا تشویش کی ضرورت تھی۔ برات میں دولہے کو جس کار میں جانا تھا وہ جماعت اسلامی کے رہنما اور مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن جناب محموداعظم فاروقی کی تھی۔ یہ نئے ماڈل کی ٹیوٹا کرولا تھی جو انہوں نے ایک دو سال قبل ہی خریدی تھی یا ان کو دفتر سے ملی تھی۔ اُنہوں نے یہ کار اِس مقصد کے لئے پہلے ہی بھجوا دی تھی۔ اس کو سجانے، نکاح کے بعد تقسیم کے لئے چھوارے اور میوے کی تھیلیوں کی تیاری اور دوسرے ضروری انتظامات بھی ابو محمد، متین انصاری اور اسرار الرحمن بھائی نے کئے۔ وقت ِ مقررہ پر برات پاپوش نگر پہنچ گئی جہاں گلی میں ٹینٹ لگا کر انتظام کیا گیا تھا۔ ہمارے سسرالی خاندان کا تعلق جماعت غربائے اہل حدیث سے تھا، اِس لئے نکاح بھی اُن کے مشہور عالم مولانا محمد یونس سلفی نے پڑھایا۔ اس طرح ہماری شادی پروگرام کے مطابق بخیر و خوبی انجام پائی۔ شادی میں ہمارے دفتر کے ساتھی، جماعت اور جمعیت کے احباب شریک ہوئے۔
‎ہم شادی کے دوسرے دن بھی معمول کے مطابق دفتر گئے اور پورا کام کیا۔ تیسرے دن ولیمہ تھا، اُس کے لئے کھانے کے سارے انتظام اور تیاری کی ذمے داری ہمارے دفتری ساتھی نثار احمد زبیری کے والد محترم انیس زبیری صاحب کی تھی۔ اُنہوں نے یہ کام رضاکارانہ طور اپنے ذمے لے لیا تھا۔ اُن سے بھی ہماری قربت اور دوستی تھی۔ وہ جماعت وسطی کے شعبۂ نشر واشاعت کے ناظم بھی تھے۔ ولیمے والے دن وہ صبح دس گیارہ بجے ہمارے گھر آگئے اور کھانا پکانے کا پورا انتظام سنبھال لیا۔ گوشت، مسالاجات، چاول اور دیگر ضروری اشیائے خوردنی کی خریداری ہمارے دفتر کے چیف فوٹوگرافر محمد میاں قریشی نے کی۔ باورچی کے کام کی نگرانی کا کام انیس زبیری نے بہ حُسن وخوبی کیا۔ اِس کا اُنہیں پہلے سے تجربہ تھا۔ ولیمے کے لئے ٹینٹ فلیٹ کی گلی میں لگائے گئے تھے۔ اِس تقریب میں پڑوسیوں کے علاوہ جنگ، جماعت اور جمعیت کے ساتھیوں اور صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں تحریک پاکستان کے رہنما مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا جان محمد عباسی، سیّد منور حسن، محموداعظم فاروقی، صابر حُسین شرقی، حکیم صادق حُسین، میرخلیل الرحمن، یوسف صدیقی، واجد شمس الحسن، ڈاکٹر محمد اطہر قریشی، مولانا عبدالغفار، سیّد محمود احمد مدنی،ہمایوں عزیز اور محمد صلاح الدین اور ظہور احد نیازی خاص طور پر شامل ہیں۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ ہماری منگنی سے شادی اور ولیمہ تک کے سارے کام ہمارے جماعتی اور دفتری ساتھیوں نے کئے اور ہمیں اِس میں کوئی تردّد نہیں کرنا پڑا۔ ہمارے خیال میں ہماری شادی اس لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ تھی کہ شادی کے پورے عرصے میں (شادی سے قبل، شادی کے دوران میں اور شادی کے بعد) ہم نے ایک دن بھی دفتر سے چھٹی نہیں لی۔ اس کی شاید ہی کوئی مثال کہیں موجود ہو۔
‎اب تک ہمارے معاملات ِ زندگی بے ترتیبی کے ساتھ چل رہے تھے لیکن شادی کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ ابتدائی دنوں میں ہمیں گھر چلانے میں کچھ مشکلات بھی پیش آئیں۔ ہمیں سودا سلف خریدنے اور سبزی، گوشت وغیرہ لینے کی صحیح پہچان بھی نہیں تھی۔ یہ ساری چیزیں ہمیں ہماری اہلیہ جمیلہ بیگم نے آہستہ آہستہ سمجھائیں۔ اس سے پہلے جب ہم، کچھ غیرشادی شدہ دوست، ایک فلیٹ میں اکٹھے رہا کرتے تھے تو ہمارا یہ معمول تھا کہ ایک دکان سے پورے مہینے کا اُدھار سودا سلف لے آتے اور تنخواہ ملنے پر اس کی ادائیگی کر دیتے۔ شادی کے بعدایک دن جب ہم اُسی دکان سے اُدھار سودا لائے تو ہماری نئی نویلی دلہن نے پوچھا کہ کیا اِس سودے کی قیمت ادا کر دی گئی ہے؟ جب بتایا گیا کہ یہ سامان پہلے کی طرح اُدھار پر لائے ہیں تو اُنہوں نے سختی سے منع کردیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر رقم نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، جب رقم ہوگی اور جتنی ہوگی، اتنا ہی سودا لایا جائے گا۔ اِس طرح ہماری بیگم نے ہماری اصلاح کر تے ہوئے ایک غلط عادت چھڑوا دی، جس کے لئے ہم ہمیشہ اُن کے شکرگزار رہے۔ اِسی طرح اُنہوں نے ہمیں سودا سلف خریدنے کی بھی پہچان کروائی۔ جس کی ہمیں پہلے سے نہ کوئی سمجھ تھی اور نہ اندازہ۔


‎ہم جمعیت طلبا سے تو1968 ہی میں صحافت میں ماسٹر کرنے کے بعد فارغ ہو چکے تھے لیکن تحریک اسلامی سے دلچسپی اُسی طرح برقرار تھی۔ تحریک کے کام زندگی کے ہر شعبے میں پھیل رہے تھے۔ یہ کام عوام النّاس میں جماعت، طلبا میں اسلامی جمعیت طلبا، مزدوروں میں این ایل ایف اور طالبات میں اسلامی جمعیت طالبات کے ذریعے ہو رہا تھا۔ ہماری دلچسپی اُن سب کے ساتھ تھی۔ شادی کے بعد ہمارے پڑوس میں رہنے والی جماعت کی ایک کارکن عشرت جہاں نے ہماری توجہ جمعیت طالبات کی سرگرمیوں کی طرف مبذول کرائی کہ اسلامی جمعیت طالبات ماسوا سندھ کے پورے پاکستان میں قائم ہے، اِسے یہاں بھی قائم ہونا چاہیے۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ اس کا فیصلہ تو جمعیت طالبات پاکستان ہی کرے گی لیکن اُنہوں نے کسی سے مشورے کے بعد کراچی کی حد تک جمعیت کی تنظیم قائم کردی اور ایک پریس ریلیز بھی جاری کردیا جس میں جمعیت طالبات، کراچی کے لئے تین عہدے داروں کا عبوری اعلان شامل تھا جس کے مطابق ناظمہ عشرت جہاں، قیمّہ کراچی غزالہ شفیع گیلانی اور ناظمہ نشر واشاعت جمیلہ عارف کو مقرر کیا گیا تھا۔ ہم نے یہ خبر عشرت جہاں کی طرف سے اخبارات کو جاری کردی جو جنگ اور ایک دو دیگر اخبارات میں شائع ہوگئی، جس کے بعد اُس کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں۔ غزالہ شفیع گیلانی کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں، اُنہوں نے وہاں ہم خیال سہیلیوں کو جمع کر کے اُن تک جمعیت ِ طالبات کا پیغام پہنچایا اور یونیورسٹی میں اُس کا یونٹ قائم کردیا۔ ان تینوں عبوری عہدے داروں نے مختلف کالجوں اور تعلیمی اداروں کے دورے کئے حتیٰ کہ حیدرآباد بھی گئیں اور وہاں بھی اس کی شاخ قائم کی۔
‎اِس واقعے کا ذکر ہم نے اپنی شادی کے ساتھ اِس لئے کیا کہ عشرت جہاں کو جمعیت طالبات کی سندھ میں شاخ قائم کرنے کا خیال اِس شادی کے فوراً بعد آیا تھا اور ہماری اہلیہ کو بھی اِس میں شامل کیا تھا۔ جس پر ہمیں کو ئی اعتراض نہیں بلکہ خوشی تھی کہ ہماری اہلیہ بھی تحریک اسلامی سے وابستہ ہو رہی ہیں۔

‎اُس زمانے میں ہماری تنخواہ 343 روپے ماہانہ تھی۔ فلیٹ کا کرایہ ایک سو روپے تھا۔ جب کہ بجلی وغیرہ کا خرچ پانچ سے دس روپے تھا۔ اس کے علاوہ شادی کی وجہ سے کچھ قرض لیا تھا جس کی ادائیگی قسطوں میں ہر ماہ کرنی پڑتی تھی۔ ہر ماہ کچھ رقم والد صاحب کو بھی بھیجتے تھے۔ پھر بھی گزارا بہت اچھی طرح ہو رہا تھا۔ ہر چیز سستی تھی اور اخراجات اور آمدنی کا توازن بہتر تھا۔ جنگ کے دفتر سے پاپوش نگر تک رکشے کا کرایہ بارہ آنے سے ایک روپے تک ہوتا تھا جب کہ سونا سواسو سے ڈیڑھ سو روپے فی تولہ تھا۔
‎کسی بھی پیشے میں نمایاں کام یابی یوں بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہو سکتی، اس کے لئے بڑے صبر کے ساتھ مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے۔ ہم نے بھی یہی طریقہ کار اپنایا۔ برسوں یہ معمول رہا کہ گھر صرف سونے کے اوقات ہی میں جا پاتا۔ شادی سے پہلے دفتر ہی ایک لحاظ سے ہمارا گھر تھا۔ نائٹ شفٹ کے دوران میں شام چار بجے سے رات آخری کاپی جانے (ڈھائی سے تین بجے رات) تک دفتر میں کام ہوتا۔ دن کی شفٹ کے لئے صبح نو، دس بجے سے شام چھ، سات بجے تک دفتر میں کام ہوتا۔ 1970 سے 1972 تک ہم نے ڈے شفٹ انچارج کی حیثیت سے کام کیا جس کے بعد ایڈیٹر اِن چیف جنگ، میر خلیل الرحمن نے ہمیں ایک نسبتاً بڑی ذمے داری سونپ دی اور ہمارا تبادلہ رپورٹنگ کے شعبے میں سیاسی رپورٹر کی حیثیت سے کردیا۔ چناںچہ ہم نے 1972 سے رپورٹنگ شروع کی تو دفتر کے اوقات ِ کار اور معمولات بھی بدل گئے۔ اب صبح نو بجے سے رات ایک بجے تک کا وقت پیشہ ورانہ مصروفیات کے لئے وقف ہوتا۔ ہماری بِیٹ (رپورٹنگ کی ذمے داری) میں پیپلز پارٹی کے ماسوا ساری سیاسی جماعتوں، صوبائی اور وفاقی حکومت، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی رپورٹنگ شامل تھی۔ چناں چہ ہمارا روز کا معمول یہ تھا کہ صبح نو بجے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ رجسٹری (جہاں بھی کوئی اہم کیس ہوتا) پہنچ جاتے، تین بجے تک وہاں خبریں تلاش کرتے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مشہور اور ہائی پروفائل مقدمات عدالت میں براہ راست سنتے اور وکلا کے دلائل، ججوں کے اہم ریمارکس اور آرڈر نوٹ کرتے۔ کوئی بات، دلیل یا نکتہ سمجھ میں نہ آتا تو متعلقہ وکیل سے وضاحت لے لیتے۔ پھر دفتر میں کورٹ کی خبریں فائل کرتے اور اپنے شعبے کی دوسری ذمے داریوں کی رپورٹنگ کے لئے دوبارہ فیلڈ میں چلے جاتے۔ واپس دفتر آ کر خبریں فائل کرتے اور اپنی بِیٹ کی خبر رساں ایجنسیوں کی انگریزی خبروں کو اردو میں تیارکرتے۔ بلاشبہ یہ بہت زیادہ کام تھا لیکن جب کام کرنے اور سیکھنے کی جستجو اور لگن ہو تو پھر کوئی مشکل، مشکل نہیں رہتی۔ آج کل اخبارات کو بنی بنائی خبریں، سرخیوں کے ساتھ فراہم کردی جاتی ہیں۔ اور ایک یا دو ایڈیٹر اُن ہی سے پورا اخبار تیار کر کے چھاپ سکتے ہیں۔ ادارتی عملے اور رپورٹرز کو بھی کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، صرف جگہ کے لحاظ سے اُن کی کاٹ چھانٹ کر کے سرخیوں کو پُرکشش بنانا ہوتا ہے۔ اِن بڑی بڑی سہولتوں کے باوجود ہم جو کام اکیلے کرتے تھے، وہ آج کل کے چار چار رپورٹرز کرتے ہیں۔ ہمارے کام کا اندازہ اِس سے لگا لیں کہ کبھی کبھی کراچی کی ڈیٹ لائن سے اخبار میں شائع ہونے والی خبریں قریباً پچاس فی صد ہماری ہی فائل کردہ ہوتی تھیں۔ ہم اِس پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتے ہیںکہ اُس نے محنت اور دل جمعی کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دی۔