اقبال اعوان:
چین کی جانب سے پاکستان سے گدھے اور کتے خریدنے کی پیشکش کے بعد گدھے کی قیمت میں 30 سے 60 ہزار اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ جمعہ کے روز لانڈھی بھینس کالونی اور اتوار کو لیاری ندی میں لگنے والی گدھا منڈی میں کاروبار بڑھ گیا۔ جبکہ ہیروئنچیوں نے شہر کے آوارہ کتوں پر نظریں گاڑ دی ہیں کہ اگر چائنا سے سودا بنتا ہے تو آوارہ کتے ان کی آمدنی کا سبب بنیں گے۔ واضح رہے کہ چائنا میں پاکستان سے پہلے گدھوں کی کھالیں بھیجی جارہی تھیں۔ ان کھالوں کو کاسمیٹکس کی مختلف اشیا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب کھال کے حصول کے لیے گدھے کے گوشت کو ضائع نہیں کیا جاتا تھا کہ کھال اتار کر گوشت پھینکا جاتا تھا تو پولیس کی کارروائی ہوتی تھی۔ اس لیے لالچی لوگ گدھے کا گوشت چھپرا ہوٹلوں، ہائی ویز کے ہوٹلز اور دیگر جگہوں پر فروخت کر دیتے تھے۔ پنجاب میں لاہور سمیت کئی شہروں میں گدھے کا گوشت پکڑا جاتا رہا ہے۔ جبکہ سالانہ ہزاروں کھالیں مختلف اشیا یا دیگر جانوروں کی کھالوں کی آڑ میں چائنا بھجوانے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان میں جانور شماری کے مطابق گدھوں کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ جبکہ خیبر پختون میں گدھوں کی فارمنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کراچی میں گدھوں کی تعداد لگ بھگ 3 سے 4 لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں پر جمعہ کے روز لانڈھی بھینس کالونی اور اتوار کو لیاری ندی میں شیرشاہ کباڑی بازار کے قریب گدھا منڈیاں لگتی ہیں۔ ایران سے گدھے اسمگل ہو کر آتے ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے تربت، خضدار اور گوادر کے علاقوں سے بھی گدھے لاکر فروخت کیے جاتے ہیں۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ خیبر پختون سے مختلف اقسام کے گدھے یہاں لائے جاتے ہیں۔ بدین کے شہر تلہار میں سالانہ گدھا منڈی لگتی ہے، جہاں ملک بھر اور ایران، افغانستان سے گدھے لاکر فروخت کیے جاتے ہیں۔ کراچی میں سب سے مہنگے گدھے ریس گاڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں جن کی دیسی گھی، خشک میوہ جات، مربہ جات اور دیگر سے تواضع کی جاتی ہے۔ اس وقت ایسے صحت مند گدھے کی قیمت ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک ہے۔ ان گدھوں کو بڑی عمر کے ہونے یا جسمانی نقصان کے بعد سامان اٹھانے پر لگا دیا جاتا ہے۔ جبکہ گدھا گاڑی، چار پہیوں والی گاڑی کے لیے استعمال ہونے والے گدھے 60 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک فروخت ہوتے ہیں۔ کراچی میں گدھا گاڑیوں کی تعداد لگ بھگ 40 سے 60 ہزار ہے جو سوزوکی کیری سے منی ٹرک تک کا مال لوڈ کر کے لے جاتی ہیں۔ گائوں دیہات میں گدھوں پر مٹی، اینٹیں لادنے کا کام کیا جاتا ہے۔ لیاری سمیت دیگر شہر کی کچی آبادیوں، مضافاتی آبادیوں میں گدھے رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ چین کی پیشکش کیا آئی گدھوں کے ریٹ بڑھ گئے۔ بالخصوص صحت مند گدھے کی قیمت میں 30 سے 60 ہزار روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بھینس کالونی لانڈھی میں مویشی منڈی کے باہر جمعہ کو سارا دن گدھا منڈی لگتی ہے۔
ایک گدھے والے رمضان کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی میں ریس والے گدھے کام نہیں کرتے۔ بوڑھے، بیمار یا جسمانی معذور گدھے علاج کے دوران آرام کر کے ٹھیک کیے جاتے ہیں۔ جبکہ تمام گدھے گاڑیوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ ابھی ان کے ریٹ مناسب تھے۔ اگر چائنا سے پاکستان حکومت کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو گدھوں کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ گدھے والے اکرم کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان گدھوں کو چند روپے کے لالچ میں کاٹ کر کھانے اور کھال کے حصول کے لیے چائنا کو بیچ دیا جائے۔ آج کل شیرشاہ اور لانڈھی بھینس کالونی کی گدھا منڈیوں میں کاروباری لوگ صحت مند گدھے سستے لے جمع کررہے ہیں کہ اگر ڈیمانڈ بڑھی اور چائنا سے سودا ہوا تو خوب منافع کمائیں گے۔ دوسری جانب کراچی کے شہری 15 سے 20 لاکھ آوارہ کتوں سے پریشان ہیں۔ ایک این جی او نے کے ایم سی کے ساتھ مل کر 2018ء میں آوارہ کتوں کی نس بندی کرنے اور اینٹی ریبیز انجکشن لگانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کے ایم سی کی جانب سے فنڈز کی فراہمی بند ہونے کے بعد چند ہزار کتوں کو پکڑا گیا۔ تاہم شہر کے لاکھوں کتے شہریوں کی جانوں کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور سالانہ 20 سے 30 ہزار ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ چین کی جانب سے پیشکش کے بعد شہر کے ہیروئنچیوں کو خوشی ملی ہے کہ کتوں کا کاروبار شروع ہونے پر ان کی آمدنی بن جائے گی۔ پاکستان نے اس حوالے سے تاحال جواب نہیں دیا ہے تاہم گدھے مہنگے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔