احمد خلیل جازم:
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے داخلی راستوں پر تاحال کنٹینرز موجود ہیں۔ ان میں سرفہرست فیض آباد کا علاقہ ہے۔ اس مین داخلی راستے سے لاہور، جہلم، گجرات،گوجرانوالہ اور دیگر بڑے شہروں کے لوگ جی ٹی روڈ سے اسلام آباد آتے ہیں۔ جبکہ مری، کشمیر، گلگت اور ملحقہ دیگر شہروں سے آنے والے بھی اسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں سرینا چوک، نادرا چوک اور ڈی چوک پر بھی متعدد کنٹینرز موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے ممکنہ لانگ مارچ کو روکنے کیلئے ریڈ زون بدستور سیل ہے اور وہاں داخل ہونے والوں کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے۔ ریڈ زون کو ویپن فری بھی قرار دیا جا چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق جس روز الیکشن کمیشن نے فیصلہ دینا تھا۔ اسلام آباد انتظامیہ ہائی الرٹ تھی۔ جبکہ اسلام آباد پولیس جو گزشتہ پورے مہینے سے تحریک انصاف کا لانگ مارچ روکنے کی تیاری میں مصروف رہی۔ وہ پہلے سے ہی تیار تھی۔ اس مرتبہ وفاقی پولیس نے خاص طور پر لیڈیز پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کو تیار کیا ہوا تھا اور اب بھی اسلام آباد پولیس نے اپنے اہلکاروں کو احتجاج روکنے کیلئے مکمل تیار رکھا ہوا ہے۔ اس تیاری میں آنسو گیس کے شیل، حفاظتی شیلڈ اور بلٹ پروف جیکٹس شامل ہیں۔ جس دن الیکشن کمیشن کا فیصلہ آیا۔ اس روز وفاقی پولیس نے خصوصی اقدامات کر رکھے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبرپختون پولیس کے ایک اہلکار کی فائرنگ کے واقعے کے فوری بعد اس اہلکار سمیت ایک سابق ایم این اے صالح محمد کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ جن کے ساتھ یہ کے پی کے کا اہلکار ڈیوٹی پر مامور تھا‘‘۔
ذرائع نے اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ پولیس کی بھاری نفری اور گاڑیوں سمیت قیدیوں کو لانے لے جانے گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ جنہیں دیکھ کر احتجاجی مظاہرین فوراً فرار ہوجاتے۔ اگر چہ عمران خان کی نااہلی کے فیصلے کے باعث توقع کی جارہی تھی کہ ملک بھر اور خصوصی طور پر اسلام آباد میں بھرپور احتجاج ہوگا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور بہت کم لوگ باہر نکلے۔ فیصلے کے فوری بعد عمران خان نے بھی کارکنان کو گھروں سے نکلنے کا پیغام دیا، کہ وہ لانگ مارچ کیلئے گھروں سے نکلیں۔ اسے جہاد سمجھیں۔ لیکن عوام نے اس پر وہ ردعمل نہیں دیا، جس کی تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو توقع تھی۔ چنانچہ مجبوراً عمران خان کو رات گئے کارکنان سے کہ کہنا پڑا کہ وہ واپس جائیں۔ وہ یہ جنگ پہلے عدالتوں میں لڑیں گے۔ بعد میں مارچ کا اعلان کریں گے‘‘۔
بعض تجزیہ کاروں کے بقول عمران خان کو یہ توقع تو تھی کہ وہ نااہل قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ ان کیلئے کارکنان اتنی کم تعداد میں باہر آئیں گے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ کارکنان ملک بھر میں بھرپور احتجاج کریں گے اور امن وامان کے مسائل پیدا ہوں گے۔ ایسی ہی کچھ توقع شاید اسلام آباد پولیس کو بھی تھی۔ لیکن چند مخصوص علاقوں کے علاوہ کہیں بھی قابل ذکر پی ٹی آئی کارکن دکھائی نہ دیئے۔ جس میں سرفہرست فیض آباد انٹر چینج تھا۔ جہاں پولیس نے پہلے ہی مکمل بندوبست کر رکھا تھا۔ آئی جی اسلام آباد ناصر اکبر جان اس موقع پر حالات کا خود جائزہ لیتے رہے۔ اس احتجاج کے بعد پولیس کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ اسلام آباد میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ سائیڈ ویز کی دیواریں توڑ کر سڑک کو بلاک کیا گیا۔ فٹ پاتھ، بجلی کے کھمبوں اور زیر تعمیر تنصیبات کو جگہ جگہ نقصان پہنچایا گیا۔ درختوں کو آگ لگائی گئی اور درختوں کو کاٹ کر سڑک پر ڈالا گیا۔ امن و امان اور احتجاج کرنے والوں کی حرکات و صورتحال کی تمام مانیٹرنگ سیف سٹی کیمروں سے مسلسل کی گئی۔
اسلام آباد پولیس نے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے بھرپور کوشش کی اور کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسلام آباد پولیس آئندہ بھی اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے کوشاں رہے گی۔ اسلام آباد میں مجموعی طور پر ٹریفک کی روانی کو بھی برقرار رکھا گیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں کو ٹریفک کی صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا گیا۔ اسلام آباد پولیس کے تمام اہلکاراس موقع پر غیر مسلح تھے۔ ان کے پاس صرف مجمع کو منتشر کرنے کا سامان موجود ہے۔ جو قطعی غیر مہلک ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اکثر مقامات پر کنٹینرز تاحال موجود ہیں۔ جبکہ پولیس نے ریڈ زون کو ویپن فری قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہاں کوئی شخص اسلحہ لے کر داخل نہیں ہوسکتا۔ پولیس کا مزیدکہنا ہے کہ پرتشدد احتجاج پر عمران خان سمیت 78پی ٹی آئی رہنمائوں پر مزید چار مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ وفاقی پولیس نے آئی نائن، شہزاد ٹاون، سنگ جانی، کھنہ، سہالہ اور سیکریٹریٹ سمیت مختلف تھانوں میں 78 نامزد رہنماؤں و کارکنوں سمیت سینکٹروں نامعلوم ملزمان کیخلاف 8 فوجداری مقدمات درج کئے ہیں۔ جن میں بعض مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات بھی لگائی کی گئی ہے۔ جن میں سابق وزیر عامر کیانی، راجہ راشد حفیظ، سینیٹر فیصل جاوید اور قیوم عباس اور دیگر اہم رہنما شامل ہیں۔ مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کار کنان نے پولیس، ایف سی، ضلعی انتظامیہ کے اسٹاف پر پتھراؤ کیا۔ جس سے متعدد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکار زخمی ہوئے۔ جبکہ مظاہرین نے قتل کی نیت سے پولیس اہلکاروں پرگاڑیاں چڑھانے کی کوشش بھی کی۔ مظاہرین نے فیض آباد، قریبی علاقوں میں درختوں کوآگ لگائی۔ سرکاری املاک کونقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کو متوقع لانگ مارچ کے اعلان کے تناظر میں ابھی وفاقی پولیس کا کنٹینر اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ البتہ ریڈ زون کے علاوہ تمام سڑکیں آمدورفت کے لیے کھول دی گئی ہیں۔