محمد نعمان اشرف:
کراچی میں بلدیاتی الیکشن تیسری بار ملتوی ہونے سے 17 ہزار امیدواروں کے 50 کروڑ روپے سے زائد ڈوب گئے ہیں۔ کراچی میں 12 سے 15 لاکھ روپے ہریوسی کی الیکشن مہم میں تقریباً ہر پارٹی نے خرچ کیے۔ پہلے بارش، پھر سیلاب اوراب سیکورٹی وجوہات کی بنا پر الیکشن منسوخ ہونے سے امیدواروں اورکارکنوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ پبلسٹی مٹیریلز، گشتی فلوٹ، پینا فلیکس، وال چاکنگ، بینرز، جھنڈے، جھنڈیاں، چائے خانوں کے بلوں اور ووٹر فہرستوں پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ سب سے زیادہ اخراجات جماعت اسلامی نے کیے۔ تحریک انصاف اور تحریک لبیک پاکستان نے بھی بھرپور تشہیری مہم پر خطیر رقم خرچ کی۔ بعض پارٹی ٹکٹ امیدوار الیکشن مہم کے باعث مقروض ہوگئے ہیں۔
شہر میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا اعلان 24 جولائی کو کیا گیا تھا۔ اعلان کے بعد کراچی میں سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ 246 یوسیز میں چیئرمین کی نشست کیلئے 3553 اور وائس چیئرمین کیلئے 3553 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ کراچی کے سات اضلاع میں وارڈز کے لیے 9965 امیدواروں نے کونسلرز کی نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ ضلع وسطی کی 45 یوسیز میں چیئرمین کیلئے 761 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ ضلع وسطی سے وائس چیئرمین کیلئے 761، جبکہ کونسلرکیلئے 2241 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
اسی طرح ضلع کورنگی کی 37 یوسیز سے چیئرمین کیلیے 313، وائس چیئرمین کیلئے بھی 313 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ ضلع کورنگی سے کونسلرز کی نشست کیلیے 1473 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ ضلع ملیر کی 30 یوسیز سے چیئرمین کیلئے 372، وائس چیئرمین کیلئے 372 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ جبکہ ضلع ملیر سے کونسلر کی نشستوں کے لیے 1140 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ ضلع غربی کی 33 یونین کونسلز کیلئے چیئرمین کی نشست پر 497 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ وائس چیئرمین کیلئے 497 اور کونسلر کی نشستوں کیلئے1336 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ ضلع جنوبی کی 26 یوسیز کے لیے 398 امیدواروں نے چیئرمین کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ جبکہ وائس چیئرمین کیلئے 398 اورکونسلرز کی نشست کیلئے 1011 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
ضلع شرقی کی 43 یوسیزسے 741 امیدواروں نے چیئرمین کی نشست کیلیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ جبکہ وائس چیئرمین کیلئے 741 اور کونسلرز کیلئے 1753 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ ضلع کیماڑی کی 32 یوسیز میں چیئرمین کیلیے 471 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ ضلع کیماڑی سے وائس چیئرمین کیلئے471 اور کونسلرز کیلئے 1011 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد بلدیاتی امیدواروں نے اپنی الیکشن مہم کا آغاز کیا۔ شہر کے 7 اضلاع میں جگہ جگہ پارٹی پرچموں کی بہار تھی تاہم الیکشن کی تاریخ آگے بڑھنے سے الیکشن مہم کا مزا خراب ہوگیا۔ معلوم ہوا ہے کہ ایک یوسی کی الیکشن مہم پر کم از کم 10 لاکھ روپے تک کے اخراجات آئے۔ سب سے زیادہ اخراجات پینافلیکس کی مد میں کیے گئے۔ الیکشن مہم کے دوران سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پینا فلیکس 3 بائے 9 کا ہوتا ہے جو کم از کم دو ہزار روپے تک کا تیار ہوتا ہے۔ یوسی میں چلنے والے رکشے، ٹیکسی اور دیگر ٹرانسپورٹ پر سیاسی جماعت کا پینا فلیکس آویزاں کیا جاتا ہے جس کی ادائیگی یوسی چیئرمین امیدوار کرتا ہے۔
ایک رکشے پر پینا فلیکس لگانے کیلئے یوسی چیئرمین امیدوار، رکشہ ڈرائیور کو ہر دن کے حساب سے کم از کم 200 روپے کی ادائیگی کرتا ہے۔ اسی طرح ٹیکسی، بس اور دیگر ٹرانسپورٹ پر پینا فلیکس آویزاں کیے جانے پر ٹرانسپورٹ مالکان امیدوار سے پینا فلیکس کی مد میں ہزاروں روپے کی رقم وصول کرتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران گاڑیوں پر بھی اسٹیکر چسپاں کیے جاتے ہیں جو 60 روپے اسکوائر فٹ کے حساب سے تیار ہوتا ہے۔ مذکورہ اسٹیکر چھوٹی گاڑیوں کے لیے 10 ہزار روپے میں تیار ہوتے ہیں اور بڑی گاڑیوں کیلئے 20 ہزار روپے میں۔ الیکشن مہم کے دوران سیاسی جماعتیں پرنٹنگ پریس سے جھنڈے بھی تیار کرواتی ہیں۔ سب سے زیادہ تیار ہونے والا جھنڈا 2 بائے 3 انچ کا ہوتا ہے جو کم از کم 300 روپے کا ایک تیار ہوتا ہے۔
الیکشن سے قبل سیاسی جماعتیں مسجد کے باہر پمفلٹ بھی تقسیم کرتی نظر آتی ہیں۔ مختلف رنگوں سے تیار ہونے والا پمفلٹ جس میں سیاسی جماعت کا منشور اورامیدواروں کی تصاویر چسپاں ہوتی ہیں یہ ایک ہزارکی تعداد میں پرنٹنگ پریس میں تیار ہوتے ہیں جس کی قیمت تین ہزار روپے ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں الیکشن کے دوران کارکنان کیلیے بیج بھی آڈر کرتی ہے۔ 50 روپے کا چھوٹا بیج تیار ہوتا ہے اور ایک سیاسی جماعت کم از کم ایک ہزار بیچز تیار کرواتی ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعت الیکشن مہم چلانے کیلیے دفتر کا انتظام بھی کرتی ہے۔ جس کو الیکشن سیل کا نام دیا جاتا ہے۔ الیکشن مہم کے دوران مالکان اضافی کرایہ وصول کرتے نظر آتے ہیں۔ دکان اور گھروں میں بھی پینا فلیکس کی بہتات ہوتی ہے ۔ ایک یوسی میں الیکشن مہم چلانے کیلئے کم از کم تین دفتروں کا انتظام کیا جاتا ہے۔
ایک دفتر میں روزانہ کی بنیاد پر بیٹھک ہوتی ہے جہاں جھنڈے، پینا فلیکس، ووٹر لسٹیں اور دیگر ضروری سامان رکھا جاتا ہے۔ الیکشن مہم شروع ہوتے ہی مالکان دکان اورگھروں کے کرائے میں 20 فیصد اضافہ کردیتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران ووٹر لسٹیں سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہیں۔ ایک یوسی چیئر مین کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹیں الیکشن کمیشن سے حاصل کی جاتی ہیں اور الیکشن کمیشن ایک یوسی کی ووٹر لسٹ 30 ہزار روپے میں فراہم کرتا ہے۔ اس طرح 246 یوسیز میں امیدواروں نے 73 لاکھ 80 ہزار روپے کی ووٹر لسٹیں الیکشن کمیشن سے خریدیں۔ ووٹر لسٹیں حاصل ہونے کے بعد کارکنان کو گھر گھر بھیجا جاتا ہے جس کیلئے وہ پیٹرول اور دیگر چیزوں کیلئے امیدوار سے رقم لیتے ہیں۔ علاقہ مکین کا ووٹر لسٹ میں نام نہ آنے پر امیدوار دوبارہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرتا ہے، جس کے امیدوار اضافی پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ الیکشن مہم میں دوسرا بڑا خرچہ کارنر میٹنگ اور جلسے میں ہوتا ہے۔
شہر میں الیکشن کا اعلان ہوتے ہی کیٹرنگ والے ٹینٹ، کرسیاں اور ٹیبلوں کے ریٹ میں اضافہ کرتے ہیں۔ عام دنوں میں ٹینٹ کی رقم چند سو روپے ہوتی ہے۔ تاہم الیکشن مہم کے دوران امیدوار کو 2 گھنٹے کیلئے 5 ہزار روپے تک میں ٹینٹ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کرسیوں اور ٹیبلوں کے الگ چارجز ہوتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران امیدوار اپنے حلقے کی اسٹریٹ لائٹس اور سیوریج کا نظام بھی اپنی مدد آپ کے تحت ٹھیک کرواتے دکھائی دیتے ہیں۔ کے الیکٹرک کی گاڑی بلائی جاتی ہے۔ اگر کے الیکٹرک انتظامیہ حلقے کا رخ نہیں کرتی تو مقامی الیکٹریشن سے یہ کام کروائے جاتے ہیں جس کے وہ ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران بعض امیدوار سوشل میڈیا بھی استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر الیکشن مہم کے الگ چارجز مقرر کیے گئے ہیں۔
عام صارف اگر کسی چیز کا اشتہار لگوانا چاہتا ہے توسوشل میڈیا میں ایک آپشن دیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ 5 ہزار روپے ادائیگی کے بعد 1500 سو صارفین کو یہ اشتہار شیئر کیا جائے گا۔ تاہم الیکشن کے دوران سوشل میڈیا پر اس کے دگنے پیسے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی امیدوار اگر یوٹیوبرز سے اپنا انٹرویو کروانا چاہتا ہے تو وہ اس کے 20 سے 50 ہزار روپے تک ادا کرتا ہے۔ شہر میں دوسری بار بلدیاتی الیکشن کی تاریخ 28 اگست کی دی گئی۔ مذکورہ اعلان کے بعد امیدواروں نے دوبارہ سے الیکشن مہم شروع کی۔ مشاہد ے میں آیا کہ دوسرے اعلان کے بعد بعض امیدواروں نے قرض لیکر اپنے لیے جھنڈے، پینا فلیکس ،بیچز اور پمفلٹ تیار کروائے۔ تاہم دوسری بار بھی الیکشن سندھ میں سیلاب آنے کے باعث ملتوی کردیئے گئے۔ شہر میں دوبارہ 23 اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان کیا گیا، تاہم سیکورٹی کی کمی کے باعث ایک بار پھر ملتوی کردیے گئے۔
’’امت‘‘ کو نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے بتایا کہ جماعت اسلامی نے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلدیاتی الیکشن میں ٹکٹ دیئے۔ شہر میں تیسری بار بلدیاتی الیکشن ملتوی ہوگئے ہیں۔ یہاں الیکشن مہم چلانے والے مڈل کلاس لوگ ہیں جن کو پیپلز پارٹی تنگ کر رہی ہے۔ اس وقت شہر کا انفرااسٹرکچر مکمل تباہ ہے۔ تعلیم ہو یا صحت، تمام شعبے تباہی کے دہانے پہنچ گئے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن نہ ہونے سے شہر میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جاگیرادری نظام قائم کر رکھا ہے۔ اگر یہ لوگ یہی چاہتے ہیں تو پھر جماعت اسلامی ان کے خلاف سڑکوں پر ہوگی۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح ملیر کا الیکشن جیتا ہے۔ ان لوگوں نے متحدہ کو بھی دھاندلی میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو بلدیاتی الیکشن میں خوف نظر آرہا ہے۔ یہ لوگ الیکشن سے فرار ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کو فرار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی الیکشن نہ کرائے جانے پر جگہ جگہ دھرنے دے رہی ہے اور اب بڑے احتجاج کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے رہنما و ممبر صوبائی اسمبلی قاسم فخری کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان نے مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلدیاتی الیکشن لڑنے کا ٹکٹ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں الیکشن کی تاریخ آگے اس لیے بڑھا رہی ہیں کہ ہمیں نقصان ہو اور ہم الیکشن سے بھاگ جائیں، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ تحریک لبیک پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط ہورہی ہے اور اس کی مقبولیت سے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں۔ الیکشن کمیشن جب بھی الیکشن کروائے گا، ہم الیکشن لڑیں گے۔ لیکن اس شہر کو فوری طور پر بلدیاتی الیکشن کی ضرورت ہے۔ سڑکیں اور سیوریج کا نظام مکمل تباہ ہوگیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما شہزاد قریشی کا کہنا تھا کہ کراچی کو بلدیاتی الیکشن کی ضرورت ہے۔ پانی، بجلی، گیس، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ سمیت تمام نظام تباہ ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی بلدیاتی الیکشن سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ ان کو ڈر ہے کیونکہ اس بار میئر کراچی تحریک انصاف کا ہی ہوگا۔ پیپلز پارٹی بار بار الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا رہی ہے۔ اس سے امیدواروں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
12 امیدوار دنیا سے رخصت ہوچکے
ضلع غربی کی یو سی سے چیئرمین کی نشست کا ایک امیدوار بھی اس دوران چل بسا۔ ضلع وسطی کی بھی یونین کمیٹیز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے 2 امیدوار جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ جبکہ ضلع کیماڑی، ملیر، کورنگی اور شرقی سے یوسیز کے 7 جنرل کونسلر کے امیدوار بھی بلدیاتی انتخابات کے تاریخوں کے دوران زندگی کی بازی ہار چکے۔