وزیر اعظم کی سعودی فرمانروا سلمان بن عزیز سے بھی ملاقات متوقع ہے۔فائل فوٹو
وزیر اعظم کی سعودی فرمانروا سلمان بن عزیز سے بھی ملاقات متوقع ہے۔فائل فوٹو

سعودی سرمایہ کاری آنے کے امکانات روشن

احمد خلیل جازم:
سعودی عرب کے دورے کے دوران وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے منعقد ہونے والی کانفرنس کے علاوہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کی سعودی فرمانروا سلمان بن عزیز سے بھی ملاقات متوقع ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت جس معاشی مشکل صورت حال میں ہے، اس تناظر میںیہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ سے قابل اعتماد دوست رہا ہے اور ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ وزیر اعظم اس بار بھی انہی مشکلات کے حل کے لیے سعودیہ روانہ ہوئے ہیں۔ جب کہ سعودی عرب سے ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کے حوالے سے بھی پیشرفت کا امکان روشن ہے۔
اس ضمن میں ’’امت ‘‘ سے بات کرتے ہوئے سابق سفارت کار ظفر ہلالی کا کہنا کہ ’’ابھی تک تو سعودیہ سے ہماری موجودہ حکومت نے کوئی بینیفٹ حاصل نہیں کیا۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا ایک بااعتماد دوست ہے۔ اس دورے کے حوالے سے سنا ہے کہ اس ریفائنری پر بات ہوگی جو سعودی عرب پاکستان میں بلینز آف ڈالر کی بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کو تیل اور گیس کی تلاش کے 10 بلاکس میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی اور سعودی عرب نے تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کرنے دلچسپی ظاہر کی تھی جسے میگا آئل سٹی منصوبے کا نام دیا گیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب فروری 2019ء میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ اس دوران پاکستان میں سعودی عرب کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے، جن میں سعودی عرب کی جانب سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر یا کراچی میں ریفائنری لگانے کے معاہدہ پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔ لیکن وہ معاملہ ابھی تک زیر التوا ہے ۔ اب امید ہے کہ اس پر پیش رفت ہوگی۔

سعودی شاہی خاندان کے شریف خاندان کے ساتھ مراسم پہلے سے ہی اچھے ہیں اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف انہیں کیش کراسکتے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ محمد بن سلمان اگلے مہینے پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اگر گوادر پورٹ چل جاتا ہے تو پھر وہاں سے ایکسپورٹ تو ہونی ہے۔ یہ سب دیگر ممالک کی بھی ضروریات میں ہے۔ کیونکہ یہ سی پیک راہداری ہے اور اس سے ہر ملک اپنی بساط بھر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ اگر سعودی عرب آئل ریفائنری لگاتا ہے تو پورے سی پیک کے راستے میں ایک بڑی انڈسٹری ہوگی۔ اور یہ معاملہ بغیر ریفائنری، بغیر تیل کے کیسے چل سکتا ہے۔ گیس پر تو سارا کام ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے ریفائنری تو چاہیے ہوگی۔ دیکھا جائے توہر ترقی پذیر ملک کو ریفائنری چاہیے ہوتی ہے۔ پھر جب گوادر اور سی پیک جیسا پراجیکٹ آپ لگا رہے ہیں تو ریفائنری کے بغیر یہ کیسے کامیاب ہوگا؟ دیکھیں اگر آپ اپنا تیل خود ریفائن کرتے ہیں تو یہ بہت بہتر ہے۔ اس کے بجائے اگر آپ ریفائن شدہ تیل منگواتے ہیں تو پھر وہ اتنا مہنگا پڑے گا کہ اس سے انڈسٹری کی ضروریات پوری نہیں ہوسکیں گی۔‘‘
اس سوال پر کہ وزیر اعظم سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں بھی شریک ہوں گے۔ ظفر ہلالی کا کہنا تھا کہ ’’اصل میں تو اس کانفرنس میں گلوبل اکانومی کی باتیں ہوتی ہیں۔ وہاں اپارچونسٹ آتے ہیں، انڈسٹریلسٹ آتے ہیں۔ ممالک کے وفود بھی آتے ہیں۔ وہاں یہ سب پراجیکٹس ایگزامن کرتے ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کس تلاش میں سعودی عرب گئے ہیں، وہ وہاں انویسٹمنٹ کی تلاش میں گئے ہیں۔ سعودی عرب اور خاص طور پرپرنس محمد بن سلمان تو دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں بہت اہمیت حاصل کرچکے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ محمد بن سلمان کا جو فیصلہ ہوتا ہے، وہ دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پروڈکشن بڑھائیں گے نہیں، بلکہ کم کریں گے۔ اس لیے تیل کی پیداوار کم کریں گے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمت کم نہ ہو۔ اب تو میرے خیال میں پرنس سلمان کا ایک نیا پاور گروپ بن گیا ہے۔

اس وقت تیل بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اگر سعودی پیداوار کم ہوتی ہے تو تیل کی قیمت اوپر جائے گی۔ روسی تیل مارکیٹ میں نہیں ، ہم نے بھی روس سے تیل خریدنے کی بات کی ہے کہ ہم بھارت والی رعایتی قیمت پر روس سے تیل لیں گے جو 40 فیصد کم قیمت پر بھارت کو مل رہا ہے۔ اب امریکا اس پر اعتراض اس لیے نہیں کرسکتا ہے کہ ایشیا میں اس کا سب سے بڑا پارٹنر انڈیا ہے۔ بھارت کو اگر اجازت ہے اور اس پر پابندیاں نہیں لگ رہیں، تو لہٰذا ہمیں بھی پابندیوں کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ظفر ہلالی سے یہ بھی پوچھا کہ پاکستان اس وقت سیلاب جیسی آفت اور انسانی المیے میں گھرا ہوا ہے تو کیا وزیر اعظم سعودی عرب سے اس حوالے سے کسی امدادی پیکج کے حصول کی کوشش بھی کرسکتے ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’بالکل یہ ہوسکتا ہے۔ دیکھیں ہم اپنی ضروریات سامنے لاتے ہیں اور سعودیہ ہمارا قریبی دوست ہے۔ وہ اس حوالے سے بھی مددکرے گا۔ لیکن اصل میں وہ ریفائنری میں انویسٹمنٹ کرے گا جو کئی بلین ڈالر پر مشتمل ہوگی۔ اب مجھے درست یاد نہیں کہ دس بلین یا بیس بلین ڈالر کا پراجیکٹ ہے، وہ اس میں ضرور دلچسپی لے گا۔ یہ تو ہمارے تعلقات پر منحصر ہے کہ اس کے علاوہ ہم ان سے فوری طور پر کیا لے سکتے ہیں۔ پرنس سلمان سعودیہ کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور اگر پاکستان چاہے تو ان سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘

آئل ریفائنری کے حوالے سے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ویسے تو 2019ء سے زیر غور ہے۔ لیکن گزشتہ دور حکومت میں سعودی پاکستان تعلقات میں سردمہری دیکھی گئی۔ سعودی وفود اس پر آکر بات چیت بھی کرچکے تھے، لیکن پھر محمد بن سلمان نے گزشتہ دور حکومت کے بعض امور کی وجہ سے دلچسپی چھوڑ دی۔ جس وجہ سے اس منصوبے پر پیش رفت نہ ہوسکی۔ اب موجودہ حکومت کے لیے موقع ہے کہ وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیں۔ اگرچہ بعض ماہرین گوادر کے بجائے حب کو بہتر جانتے ہیں، لیکن اصل معاملہ ہے سعودی انویسٹمنٹ کا، وہ آنی چاہیے۔ گوادر ہو یا حب، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔