امت رپورٹ:
تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے سبب قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا جھٹکا لگے گا۔ لانگ مارچ سے نمٹنے کی تیاریوں کے سلسلے میں حکومت نے ایک ماہ قبل اکتالیس کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ تاہم اب ان اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق منظور شدہ بجٹ سے دگنی رقم لانگ مارچ سے نمٹنے کے اخراجات کی مد میں خرچ ہوگی۔
واضح رہے کہ عمران خان نے آخر کار لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔ ایوان وزیر اعلیٰ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ’’میں نے جمعہ کو لانگ مارچ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لبرٹی چوک لاہور سے اسلام آباد کے لئے ہمارا لانگ مارچ جمعہ کی صبح گیارہ بجے شروع ہوگا۔ میں لیڈ کروں گا‘‘۔
عمران خان نے چند روز پہلے جمعہ کو لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے کا اعلان کیا تھا۔ توقع کی جارہی تھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی نومبر کے پہلے ہفتے میں لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کریں گے۔ تاہم منگل کی رات عمران خان نے ڈیڈ لائن سے تین روز پہلے ہی اچانک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ قبل از وقت لانگ مارچ کی تاریخ کے اعلان کے اسباب سے واقف ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی ملک کے موجودہ ماحول سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت سینئر اینکر ارشد شریف کے قتل کا ایشو میڈیا پر چھایا ہوا ہے اور اس کے سبب لوگوں میں حکومت مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ ایسے میں لانگ مارچ کی کال پر زیادہ سے زیادہ لوگ باہر نکلیں گے۔ اسی تناظر میں ڈیڈ لائن سے قبل ہی لانگ مارچ شروع کرنے کی تاریخ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جبکہ ماحول کو مزید گرم کرنے کے لئے ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ارشد شریف کے قتل کو لے کر سوشل میڈیا پر بھی افواہوں پر مبنی منظم پروپیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے۔
اسلام آباد میں موجود پی ٹی آئی کے ذرائع نے بتایا کہ جمعہ سے ہی لانگ مارچ کرنا اگرچہ عمران خان کا اپنا فیصلہ ہے۔ لیکن پارٹی کے بیشتر رہنما چونکہ ادھر ہی دیکھتے ہیں۔ جس طرف پارٹی چیئرمین دیکھے اور وہ پارٹی سربراہ کے فیصلوں سے اختلاف رائے کے بجائے حکم بجا لانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول اس کے باوجود پارٹی کے بعض رہنما لانگ مارچ کے حق میں نہیں۔ یہ اختلاف رائے رواں برس پچیس مئی کے بعد سے چلا آرہا ہے۔ جب پہلے لانگ مارچ کی ناکامی پر عمران خان نے دوسرے لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ لیکن دوسرے لانگ مارچ کے لئے وہ چھ ماہ تک تاریخ دینے سے قاصر رہے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق معتدل تصور کئے جانے والے لانگ مارچ مخالف بعض پارٹی رہنمائوں کا اب بھی یہی خیال ہے کہ سڑکوں پر آنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کو ترجیح دی جائے۔ تاہم ذرائع کے بقول معتدل مزاج رہنما یہ اختلاف رائے پارٹی اجلاسوں میں ہی کرتے ہیں۔ میڈیا یا عوام کے سامنے انہوں نے کبھی بھی دل کی بات نہیں کی۔ اب چونکہ عمران خان نے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی ان معتدل مزاج رہنمائوں کو پارٹی چیئرمین کے فیصلے کے ساتھ چلنا پڑے گا۔
ادھر وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے نمٹنے کی تیاری مکمل کر رکھی ہے۔ ان تیاریوں پر خرچ ہونے والی رقم کی منظوری گزشتہ ماہ ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے دیدی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب معیشت بحران کا شکار ہے اور ملک کا ایک بڑا حصہ تاحال سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور لاکھوں متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔ ایسے میں عمران خان کا لانگ مارچ قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ثابت ہوگا۔ اکتوبر میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا۔ جس میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لئے بجٹ سے متعلق وفاقی وزارت داخلہ کی دو سمریاں پیش کی گئی تھیں۔ جس پر اقتصادی رابطہ کمیٹی نے امن و امان سے متعلق اخراجات کے لیے اکتالیس کروڑ بیس لاکھ روپے کی ابتدائی گرانٹ کی منظوری دی تھی۔ جسے تیس ہزار پولیس اور دیگر فورس کے اہلکاروں کی تعیناتی، ان کے کھانے پینے کے انتظامات، نقل و حمل اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولوں اور دیگر سامان کے حصول کے لئے استعمال کیا جانا ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ امن و امان کو برقرار رکھنے اور موثر حفاظتی اقدامات یقینی بنانے کے لئے اسلام آباد میں ضلع کے باہر سے قانون نافذ کرنے والے تیس ہزار اہلکاروں کی ضرورت ہے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گاڑیوں اور کنٹینرز کے بندوبست کے لئے پچیس کروڑ نو لاکھ روپے، خوراک کے لئے پینتیس لاکھ روپے، ایندھن کے لئے اکتیس لاکھ بیس ہزار اور دیگر مد میں اٹھارہ لاکھ روپے کی منظوری دی تھی۔ ان اہلکاروں کے پانچ دنوں کی رہائش کے انتظامات کے لئے پچیس لاکھ روپے، سیکورٹی کیمروں اور دیگر متعلقہ آلات کی خریداری اور تنصیب کے لئے مزید چونسٹھ لاکھ چالیس ہزار منظوری دی گئی تھی۔ تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے میں چونکہ مسلسل تاخیر کی جا رہی تھی۔ جبکہ حکومت نے لانگ مارچ سے نمٹنے کی تیاری اور انتظامات پچھلے ڈیڑھ ماہ سے کر رکھے ہیں۔ جس کے لیے اسلام آباد کے باہر سے ہزاروں پولیس اہلکار پہلے ہی دارالحکومت پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد کے اندر اور باہر بڑی تعداد میں کنٹینر بھی قریباً ایک ماہ پہلے پہنچائے جاچکے تھے۔ جس پر کافی اخراجات ہو چکے ہیں۔ لہٰذا گزشتہ ماہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے لانگ مارچ کے تناظر میں امن و امان سے متعلق اکتالیس کروڑ روپے سے زائد کی جو گرانٹ منظور کی۔ اب اخراجات اس سے دو گنا بڑھ جائیں گے۔