عمران خان حملہ،مدعی کون

عمران خان پر قاتلانہ حملے کی مختلف پہلوئوں سے تحقیقات

امت رپورٹ/ نواز طاہر:
پنجاب پولیس، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مختلف پہلوئوں سے تحقیقات کر رہی ہے۔ ایک درجن سے زائد کیمروں کی فوٹیج قبضے میں لے کر ان کا فرانزک معائنہ جاری ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے پنجاب حکومت سے واقعہ کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطح کی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران جمعرات کو وزیرآباد کے اللہ ہو چوک پر فائرنگ کے واقعہ میں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت سات افراد زخمی اور ایک شخص جاں بحق ہوا۔
پنجاب پولیس اس افسوسناک واقعہ کی مختلف پہلوئوں سے تحقیقات کر رہی ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ فائرنگ میں کتنے ہتھیار استعمال ہوئے؟ حملہ آوروں کی تعداد کتنی تھی؟ کیا یہ حملہ انفرادی فعل تھا یا اس کے پیچھے ایک پورا منصوبہ تھا۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے اسے ایک ’’منصوبہ بند قاتلانہ حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں ان کا دعویٰ تھا کہ اصل منصوبہ عمران خان اور پارٹی قیادت کو قتل کرنا تھا۔ اور یہ کہ حملے میں نائن ایم ایم پستول نہیں بلکہ آٹومیٹک ہتھیار سے برسٹ مارا گیا۔
ادھر ضلع گوجرانوالہ کے تھانہ کنجاہ کی پولیس کی جانب سے گرفتار مبینہ حملہ آور کے بیان کی ویڈیو جاری کی گئی۔ جس میں فائرنگ کا اعتراف کرتے ہوئے وہ کہہ رہا ہے کہ ’’عمران خان لوگوں کو گمراہ کر رہا تھا۔ مجھ سے یہ چیز دیکھی نہیں گئی۔ اس لئے مارنے کی کوشش کی‘‘۔ اگرچہ مبینہ حملہ آور کا دعویٰ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی نہیں اور وہ اکیلا تھا۔ تاہم ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس مبینہ ملزم کے ابتدائی بیان سے متفق نہیں۔ اس لئے ابتدائی تفتیش میں اس پہلو پر بھی خاص توجہ دی جارہی ہے کہ اس واقعہ میں جائے حادثہ پر کتنے ملزمان موجود تھے اور یہ کہ ان کے پیچھے کون ہے۔ اسی طرح ویڈیو فوٹیج میں مبینہ ملزم کے ہاتھ میں پستول دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن شک ظاہر کیا جارہا ہے کہ زیر حراست ملزم کے گولی چلائے جانے سے قبل کنٹینر پر موجود عمران خان اور دیگر پارٹی قیادت پر پورا برسٹ مارا گیا۔
پنجاب پولیس کی جانب سے جائے حادثہ کو Cordon Off (گھیرائو) کرنے اور کنٹینر کو سیل کرنے میں تاخیر کی گئی۔ اس دوران میڈیا کے لوگ اور پی ٹی آئی کے کارکنان آزادانہ کنٹینر پر گھومتے رہے۔ اس کے نتیجے میں اہم فرانزک شواہد ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ کسی بھی واقعہ کی تحقیقات میں کرائم سین سے حاصل کردہ شواہد بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ تاہم واقعہ سے کافی دیر بعد پولیس نے جائے حادثہ اور کنٹینر کو سیل کردیا اور شواہداکٹھے کئے۔
اس واقعہ کے حوالے سے یہ سوال بھی اہم ہے کہ عوام سے عمران خان کے خطاب کے دوران حفاظتی بلٹ پروف شیشہ کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟ حالانکہ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پنجاب پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی رہنمائوں کو متعدد بار تحریری طور پر خطرے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ اور زور دیا گیا تھا کہ دوران لانگ مارچ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان بلٹ پروف روسٹرم اور شیشہ کو ہر صورت استعمال کریں۔ اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ سیکورٹی کے باوجود حملہ آور عمران خان کے کنٹینر کے اتنے نزدیک کیسے پہنچ گیا۔ ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس ان تمام پہلوئوں کا جائزہ لے کر ہی تفتیش آگے بڑھا رہی ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لانگ مارچ کے ساتویں روز پنجاب کے بیشتر صحافیوں کو یہ خفیہ اطلاع تھی کہ وزیر آباد میں عمران خان کے کنٹینر پر پتھرائو کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کے بقول انہوں نے کل رات احمد چٹھہ کو فون کرکے بتایا تھا کہ وزیر آباد میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوگا۔ یہ بڑا اہم انکشاف ہے۔ لہٰذا امکان ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کرنے والے تفتیش کار اس سلسلے میں سینیٹر اعجاز چوہدری سے بھی رابطہ کریں گے کہ انہیں اس واقعہ کا قبل از وقت کیسے علم ہوا؟ واضح رہے کہ فائرنگ سے کنٹینر پر کھڑے عمران خان کے ساتھ جو دیگر دو لوگ زخمی ہوئے ۔ ان میں سے ایک احمد چٹھہ ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ انہیں دونوں رانوں میں ایک ایک گولی لگی ہے۔ دوسرے فرد فیصل جاوید تھے۔ جن کے رخسار کو گولی چھوتی ہوئی گزری۔ جبکہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق گولی لگنے سے عمران خان کی پنڈلی زخمی ہوئی۔ واقعہ میں جاں بحق ہونے والے شخص کی شناخت معظم نواز کے نام سے ہوئی۔ وہ پی ٹی آئی کا ورکر بتایا جاتا ہے۔
ادھر سابق وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے واقعہ کے آدھے گھنٹے بعد ہی مبینہ حملہ آور کی ویڈیو جاری کرنے کو تحقیقات متاثر کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اعجاز شاہ کے بقول صرف پستول کا فائر ہی نہیں ہوا۔ بلکہ آٹو میٹک ہتھیار سے برسٹ مارا گیا اور وہ پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں۔ پنجاب پولیس کے پاس بہترین ایکسپرٹ ہیں۔ جو واقعہ کی تحقیقات کرکے اصل ملزمان تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ واقعہ کے فوری بعد مبینہ ملزم سے بیان دلاکر پروفیشنل اپروچ کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مبینہ ملزم کی ویڈیو جاری کرنے پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سمیت پورے عملے کو معطل کردیا گیا ہے۔
لاہور سے نمائندہ ’’امت‘‘ کے مطابق زیر حراست ملزم کی فائرنگ کے ساتھ ہی ریپیٹر گن سے برسٹ مارا گیا۔ اس کے نتیجے میں بھگدڑ مچی تو سیکورٹی اہلکاروں نے صرف گولی چلنے والی سمت کی طرف دوڑ لگائی۔ کسی نے برسٹ مارنے والوں کی جانب توجہ نہیں دی۔ سیکورٹی اداروں کے ذرائع کے مطابق کنٹینر کے چاروں اطراف کی فوٹیجز حاصل کی گئی ہیں۔ اور ممکنہ طور پر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے اندر برسٹ مارنے والوں کا سراغ لگا لیا جائے گا۔ ؎یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گھکڑ منڈی سے سرائے عالمگیر تک کے راستے کو مخصوص حلقوں میں ’’ڈینجر زون‘‘ قرار دیا جا رہا تھا۔ اور ایسی اطلاعات تھیں کہ دریائے چناب کے بیلے (جنگل) میں سے کچھ مسلح لوگ دیکھے گئے ہیں۔ جبکہ کچھ افراد منگوال میں موجود تھے۔

ذرائع کے مطابق سوہدرہ سے تعلق رکھنے والے زیر حراست ملزم نوید بشیر کا ابتدائی ویڈیو بیان جاری کئے جانے کے بعد میڈیا کو اب اس کے بارے میں مزید تفصیلات جاری نہ کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے لئے کنٹینر تیارکرنے والوں سے بھی پوچھ گچھ شروع کردی گئی ہے کہ بلٹ پروف کنٹینر کی حفاظتی آہنی چادر، گولی کو کیوں نہ روک سکی۔ اور یہ کہ اگر فائرنگ قریب سے کی گئی ہے تو سیکورٹی اہلکار کی جوابی فائرنگ کس پر کی گئی۔ پی ٹی آئی ذرائع کے بقول یہ واقعہ پنجاب میں ہوا ہے۔ جہاں ان کے اتحادی پرویزالٰہی کی حکومت ہے۔ پنجاب میں اپنا وزیراعلیٰ نہ بنانا عمران خان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔