مخلوط حکومت کوعوامی ریلیف سے متعلق اپنا ٹاسک پورا کرنے کیلیے بھی مناسب وقت درکار ہے-فائل فوٹو
  مخلوط حکومت کوعوامی ریلیف سے متعلق اپنا ٹاسک پورا کرنے کیلیے بھی مناسب وقت درکار ہے-فائل فوٹو

’’اتحادی موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کا سوچنے لگے‘‘

امت رپورٹ:
ایسے میں جب عمران خان قبل از وقت الیکشن کی تاریخ حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، وزیرآباد واقعہ سے پہلے لانگ مارچ کی صورت میں سڑکوں پر تھے۔ ٹھیک اس دوران اتحادی حکومت وقت سے پہلے الیکشن کرانا تو دور کی بات ہے، موجودہ اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کا سوچ رہی ہے۔
واضح رہے کہ اپریل سے اپنی معزولی کے بعد سے سابق وزیراعظم عمران خان مسلسل فوری جنرل الیکشن کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جبکہ مخلوط حکومت اس سے انکاری ہے اوراس کا کہنا ہے کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ حکومت کے اس موقف پرعمران خان نے اٹھائیس مئی کو لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا، تاکہ ٹس سے مس نہ ہونے والی مخلوط حکومت پر دبائو بڑھا کراسے قبل ازوقت الیکشن کے اعلان پر مجبور کیا جاسکے۔ تاہم قسط وار کیے جانے والے سست رفتارلانگ مارچ میں کپتان کی توقعات سے کہیں کم لوگوں کی شرکت نے مخلوط حکومت کے اعتماد میں اضافہ کیا۔
پی ڈی ایم ذرائع نے’’امت‘‘ کو بتایا کہ مخلوط حکومت نے ناکام مارچ سے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ قبل ازوقت الیکشن کرانے سے متعلق عمران خان کے دبائو کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ اس دوران درمیان کا راستہ نکالنے سے متعلق خبریں بے بنیاد تھیں، جن میں کہا جارہا تھا کہ اگر تحریک انصاف فوری الیکشن کے بجائے مارچ میں الیکشن کرانے پر آمادہ ہو جائے اور نون لیگ اس سے اتفاق کرتے ہوئے اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے سے متعلق اپنے موقف کو چھوڑ دے تو معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ تاہم پی ڈی ایم ذرائع نے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے مذاکرات کی یکسر نفی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور اس سے باہر تمام اتحادی پارٹیاں موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کے حوالے سے ایک پیج پر تھیں اور ہیں۔ جبکہ ناکام لانگ مارچ نے حکومت کے اس فیصلے اوراعتماد کو مضبوط کیا ہے۔

پی ڈی ایم کے گزشتہ اجلاس میں موجود ایک رہنما نے بتایا کہ دوران میٹنگ تمام نو پارٹیوں نے حکومتی فیصلے کی ناصرف ایک بار پھر تائید کی، بلکہ یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ اگر وفاقی حکومت کے خلاف کوئی سازش ہوتی ہے تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ یعنی نون لیگ کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔

پی ڈی ایم ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اتحادی پارٹیاں نا صرف مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ بلکہ اپوزیشن اتحاد کے بعض رہنمائوں کے دماغ میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ اگر موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے قبل مخلوط حکومت، عوام کو مطلوبہ ریلیف دینے میں ناکام رہتی ہے تو اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کے آپشن پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ عوام کو ریلیف دیے بغیر آئندہ انتخابات میں جانا ’’سیاسی خودکشی‘‘ کے مترادف ہو گا۔

اس معاملے سے آگاہ پی ڈی ایم کے ایک رہنما نے بتایا ’’موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں اضافہ کرنے سے متعلق معاملہ اگرچہ ابھی تک اتحادیوں کے کسی اجلاس میں ڈسکس نہیں ہوا ہے۔ تاہم اہم رہنمائوں کے دماغ میں یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے۔ اور ان کے مابین غیر رسمی طور پر یہ معاملہ زیربحث بھی آیا ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے اگر اسمبلیوں کی مدت بڑھانا ناگزیر تصور کیا جاتا ہے تو اتفاق رائے کے لیے اس ایشو کو اتحادیوں کے اجلاس میں رکھا جائے گا۔‘‘ مذکورہ رہنما کے بقول اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کی سوچ اس لیے پائی جاتی ہے کہ خاص طور پر سیلاب کے بعد کے حالات کم از کم ایک برس تک عام انتخابات کرانے کے لیے موافق دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ملک کے ایک تہائی حصے کے لوگ سیلاب سے متاثر ہونے کے بعد دوسرے شہروں میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔ گھر اور کاروبار تباہ ہونے کے بعد ان متاثرین کی بڑی تعداد خیموں میں اور سڑکوں پر ہے۔ مثلاً نصف کے قریب سندھ کے دیہات کی آبادی کراچی، حیدرآباد اور سکھر شفٹ ہو چکی ہے۔ کم از کم ایک ڈیڑھ برس تک ان کی بحالی کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ ان متاثرین کے ووٹ اپنے آبائی علاقوں میں ہیں۔ ایسے میں عام انتخابات ہو جاتے ہیں تو یہ اپنا ووٹ کیسے کاسٹ کریں گے۔ جبکہ مارچ میں مردم شماری ہے۔ یوں ووٹرلسٹوں میں ان کا نام آنا بھی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

یہی صورت حال جنوبی پنجاب کی ہے۔ جہاں ڈیرہ غازی خان ڈویژن سمیت دیگر علاقے سیلاب سے بری طرح متاثر ہیں اور ان کے مکین مختلف شہروں کو نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہی حال بلوچستان کا ہے جہاں پشتون اور بلوچ بیلٹ کو سیلاب نے سخت نقصان پہنچایا ہے، اور ان کے مکین دربدر ہیں۔ خیبرپختون میں کرک، ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر اضلاع بھی سیلاب سے تباہ ہیں۔ وہاں فصلوں کو پانی دینے کے لیے نہری نظام بھی اب تک بحال نہیں کیا جا سکا ہے۔ مذکورہ رہنما کے بقول ملک بھر کے سیلاب متاثرین اور ان کے علاقوں کی بحالی ایک ڈیڑھ برس میں ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ اسی لیے اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کی سوچ پیدا ہوئی ہے۔ پھر دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیاں عوام کو واضح ریلیف دیے بغیر انتخابی میدان میں نہیں اترنا چاہتیں۔ جبکہ اس عوامی ریلیف کے لیے بھی موجودہ حکومت کو کم از کم ڈیڑھ برس درکار ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ جہاں لانگ مارچ کا شو فلاپ ہونے نے مخلوط حکومت کو حوصلہ دیا تھا، وہیں اب لانگ مارچ کے ملتوی ہونے کے سبب حکومت کو مزید ریلیف ملا ہے۔ موجودہ حالات میں مخلوط حکومت کسی صورت بھی قبل ازوقت انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔ واضح رہے کہ وزیرآباد واقعے میں عمران خان کے زخمی ہونے کے سبب لانگ مارچ فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس واقعے کو مخالفین عمران خان کے لیے فیس سیونگ بھی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں جلد بازی میں لانگ مارچ شروع کر کے عمران خان پھنس گئے تھے۔ کیونکہ ان کی توقعات سے کہیں کم لوگ باہر نکلے۔ اس صورت حال میں عمران خان کی کوشش تھی کہ چاہے مخلوط حکومت الیکشن کے لیے اگلے برس کی تاریخ دیدے۔ وہ اسے جواز بناتے ہوئے ناکام لانگ مارچ کو ختم کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ تاہم مخلوط حکومت کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینے سے صاف انکار کر دیا گیا اور دوٹوک کہا گیا کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔ یوں فیس سیونگ سے متعلق عمران خان کی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔ تاہم وزیرآباد واقعے نے انہیں یہ موقع فراہم کر دیا، جبکہ حکومت نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔