غیرقانونی انتقامی کارروائیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔  فائل فوٹو
غیرقانونی انتقامی کارروائیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔  فائل فوٹو

’’تحریک انصاف اورق لیگ کا سمجھوتا پائیدار نہیں‘‘

نواز طاہر:
پی ٹی آئی اوراتحادی جماعت ق لیگ میں نچلی سطح پر خلیج وسیع ہونے کے باوجود مرکزی سطح پراختلافات ظاہرنہ کرنے پراتفاق ہوا ہے۔ لیکن ذرائع کا دعویٰ کہ مفادات اورمجبوری کا یہ سفرشاید زیادہ طویل نہ ہوسکے۔ جبکہ دونوں جماعتوں کی ایک دوسرے کے بارے تحفظات کی ’چارج شیٹ‘ بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کا سمجھوتا پائیدار نہیں رہا۔ صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی ہنگامہ آرائی سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی اسی چپقلش کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی لانگ مارچ کے دوران فائرنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے اتحادی جماعتوں میں عدم اعتماد میں اضافہ کردیا ہے جس کا اظہار پی ٹی آئی کے رہنما کھلے عام کرچکے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ق اس معاملے میں تاحال خاموش ہے۔ وزیرآباد میں عمران خان پر فائرنگ کا واقعہ پیش آتے ہی پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے اپنی ہی پنجاب حکومت اور اس کے سربراہ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سوالات اٹھائے تھے۔ لیکن وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اورعمران خان کی ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کے لوگوں کو اپنی صوبائی حکومت اور اس کے سربراہ کے حوالے سے منفی گفتگو کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اور فائرنگ کے واقعے کے حوالے سے پی ڈی ایم خصوصاً مسلم لیگ ن اور ریاستی ادارے کے بارے میں جارحانہ بیانیے پر زور دینے کی ہدایت کی گئی۔ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے عسکری ادارے کے افسر کے خلاف کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اپنی قیادت کے فیصلے کے مطابق مکمل آزادی کے ساتھ احتجاج کریں۔ تاہم یہ مناسب ہوگا کہ سرکاری تنصیبات کوگزند پنچانے سے گریز کیا جائے۔ اپنی خواہش کے مطابق مقدمے کے اندراج سے انکار پر پی ٹی آئی کے تلملانے والے رہنما فی الحال خاموش ہوگئے ہیں۔ لیکن باہمی گفتگو میں تحفظات جاری رکھے ہوئے ہیں اور پرویز الٰہی کے بارے میں اعتراضات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں وزیراعلیٰ بنانا اپنی قیادت کی بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی کے بعد گذشتہ روز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جب گورنر ہائوس کا گھیرائو کیا تو پولیس خاموشی سے پیچھے ہٹ گئی تھی اور مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جس کے بعد گورنر ہائوس کی طرف سے صوبائی انتظامیہ کو گورنر ہائوس کی سیکورٹی یقینی بنانے اور پولیس کی مناسب نفری تعینات کرنے کا مراسلہ بھیجا گیا۔ دوسری جانب ہفتے کو بھی جب لاہور سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں شہروں کے داخلی راستے بند کیے گئے تو پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
مسلم لیگ ق کے ذرائع تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں نے وزیر اعلیٰ کے بارے میں غیر مناسب رویہ اختیار کیا اور فائرنگ کے واقعے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد کی جو غیر مناسب رویہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف اوقات میں پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے رہے ہیں جو اتحادی جماعت کے سربراہ کے وقار کے منافی ہیں۔ اس ضمن میں بعض مذہبی امور پر پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں اور مسلم لیگ ق کی اجتماعی سوچ میں رائے الگ ہونے پر بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مسلم لیگ ق کے بارے میں نفی گتگو کی تھی۔ اِس وقت بھی پی ٹی آئی کارکنوں کے احتجاج کا ’’جمہوری حق‘‘ جس طرح استعمال کیا جارہا ہے اور گورنرہائوس پر بھی چڑھائی کی جارہی ہے، اس پر صوبے کی تاریخ میں کبھی بھی کسی وزیراعلیٰ نے اس قدر تحمل اور برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا۔

ق لیگی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں جس سے لگے کہ صوبے میں حکومت کوئی وجود نہیں رکھتی۔ پُر امن احجاج میں ہم ان کے حامی ہیں، لیکن ثبوت کے بغیر مقتدرادارے کے کسی افسر کے بارے میں یا پورے ادارے کے بارے میں منفی گفتگو اور منفی مہم کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ مسلم لیگ ق کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعتوں میں سوچ اور نظریے میں فرق رہتا ہے اور اسے ساتھ لیکر بھی چلنا پڑتا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر اپنی اور اتحادیوں کی قیادت کی طر ف دیکھا جاتا ہے کہ وہ آپ کی جماعت کے سربراہ کو کس قدر اہمیت اور احترام دیتے ہیں۔

ان ذرائع کا کہنا تھا کہ جس حد تک ممکن ہوا پی ٹی آئی کا ساتھ دیا جائے گا، لیکن یہ بات نا قابلِ برادشت ہے کہ دفاعی ادارے کو ہی کسی ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر معطون کیا جائے۔ اگر ایسے الزام تراشیاں بند نہیں ہوئیں تو ممکن ہے کہ دونوں جماعتوں کا ساتھ زیادہ طویل نہ ہو۔ جہاںتک پی ٹی آئی کے کچھ عاقبت نا اندیش لوگوں کا یہ مغالطہ ہے کہ مسلم لیگ ق کو وزارتِ اعلیٰ، پی ٹی آئی کی وجہ سے ملی ہے تو یہ مغالطہ درست نہیں۔ اگر صرف وزارتِ اعلیٰ ہی کی بات ہوتی تو چودھری پرویز الٰہی کو دوسری جانب سے کھلی پیشکش تھی جو انہوں نے ٹھکرادی۔ ان ذرائع کے مطابق اس بات کا احساس عمران خان کو بھی ہے کہ جب تک عبوری سیٹ اپ نہیں بنتا، پنجاب سمیت کسی صوبے کی حکومت سے علیحدگی اختیار نہیں کرنی۔ اس کا ادراک انہیں پنجاب میں مختصر عرصے میں اپنی حکومت نہ ہونے کے دوران ہوگیا تھا۔