نواز طاہر:
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کل (منگل) سے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم اس کی قیادت وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کریںگے۔ اس لانگ مارچ کی حکمتِ عملی بھی تبدیل کر دی گئی ہے۔ جس کے تحت روزانہ لانگ مارچ عمران خان کی مواصلاتی تقریر کے ساتھ ختم ہوگا۔ لیکن عمران خان کی قیادت کے بغیر یہ مارچ سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ کیونکہ کارکنان پارٹی کے بیشتر رہنمائوں اور ارکان اسمبلی کو مفاد پرست سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ لاہور میں احتجاج میں کارکنوں کی تعداد انتہائی کم رہی۔ جس پر احتجاج موخر کر دیا گیا۔ جبکہ عمران خان کے قریبی حلقوں کی طرف سے لانگ مارچ جاری رکھنے کو کپتان کی ضد قرار دیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی چیئرمین نے کسی سے مشاورت کیے بغیر یہ لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ عمران خان نے فائرنگ کے مقدمہ میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور عسکری ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کو نامزد کرنا چاہا تھا۔ لیکن صوبائی حکومت اور آئی جی پنجاب نے ٹھوس شواہد نہ ہونے پر حسبِ منشا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر عمران خان نے کارکنوں کو کال دی تھی کہ جب تک پی ٹی آئی کی منشا کے مطابق مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔ تب تک کارکن سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔ مگر اس کال پر پی ٹی آئی کے کارکنان خصوصاً لاہور میں صرف شاہراہیں ہی بند کر سکے۔ جس پر پنجاب میں احتجاج موخر کر دیا گیا۔
اس ضمن میں پنجاب حکومت کے محکمہ اطلاعات کی طرف سے ترجمان مسرت جمشید چیمہ کا سرکاری بیان جاری کیا گیا کہ عمران خان نے تبلیغی اجتماع کے زائرین (شرکا) کی واپسی کی وجہ سے احتجاج ایک روز کیلئے موخر کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ جس وقت قافلے اس اجتماع میں شرکت کیلئے آرہے تھے تو سڑکوں پر نکلنے اور راستے بند کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہیں راستہ دلانے کیلئے نیشنل ہائی وے سمیت ٹریفک پولیس کو بھی مشکلات اٹھانا پڑی تھیں۔
دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ عمران خان کو لاہور میں احتجاج کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں رپورٹ دے دی گئی ہے۔ جس کے مطابق لبرٹی مارکیٹ چوک کے ماسوا کارکنان کسی مقام پر بہت بڑی تعداد میں جمع نہیں ہوئے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ صرف پوش علاقوں میں کارکنان اپنے طور پر نکلے اور مقامی اراکین اسمبلی اور عہدیداراں نے اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کے کارکنوں کی طرف دیکھتے رہے اور رپورٹیں جمع کرتے رہے کہ کس کے علاقے میں کتنے لوگ جمع ہوئے؟ اس ضمن میں این جی اوز کے سہارے پارٹی میں جگہ بنانے والی خواتین پر خاص طور پر تنقید کی جارہی ہے۔ جبکہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی کو منظم کیا گیا ہوتا تو بڑی تعداد میں کارکن سڑکوں پر آسکتے تھے۔ لیکن پارٹی عہدیداروں، ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کو عمران کی قربت حاصل کرنے اورایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ ارکان اسمبلی بھی از خود سڑکوں پر نکلنے والے کارکنوں اورعمران خان کی شخصیت کی وجہ سے منتخب ہوئے۔ ورنہ ذاتی حیثیت میں تو وہ کونسلر بھی نہیں بن سکتے۔ اگر انہی لوگوں کو دوبارہ ٹکٹ جاری کئے گئے تو اس پر بھی احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔ وہ اپنے قائد عمران خان کے ساتھ ہیں۔ ان مفاد پرستوں کے ساتھ ہرگز نہیں جو ان کے کاندھوں پر سیاست کرتے ہیں۔ انہیں نکال دیں تو وہ (کارکنان) چیئرمین کو سنبھالنے کیلیے کافی ہیں۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق اوپر سے نیچے تک پارٹی میں ’مسائل‘ ہیں اور لاہور میں یہ مسائل بہت زیادہ ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان کو روزانہ کی بنیاد پر پارٹی عہدیداروں، ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کی مانیٹرنگ کرنا چاہیے کہ کس کے ساتھ کارکنان کی تعداد کتنی اور کون صرف پارٹی کے کندھوں پر سوار ہیں۔ لانگ مارچ کے لاہور سے باہر کے شرکا اس ضمن میں اہمیت کے حامل ہیں کہ چھوٹے شہروں میں بھی لاہور سے زیادہ کارکن نکلے۔ ان ذرائع کے مطابق اب لانگ مارچ کی قیادت کی ’کسی‘ کی خواہش پوری ہو رہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ خان کے بغیر یہ قیادت کتنے لوگوں کو باہر سڑکوں پر لاتی ہے؟ کیا لوگ ان کا استقبال کریں گے جو خود اپنے حلقوں میں نہیں نکلتے۔ دوسری جانب مسلسل سڑکوں پر رہنے والے کارکنان ایک دوسرے سے سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کے باوجود پارٹی چیئرمین کی چیخ و پکار کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہو رہا۔ اس میں ہم اگرچہ ذمے دار کسی اورکو بھی سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا ہم لوگوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ جو اپنے قائد پرحملے کی یف آئی آر بھی درج نہ کرے؟ اس سے کارکن بددل ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ہم نے کس کو اور کیا انصاف دلانا ہے۔ جب خود اپنی حکومت میں مقدمہ درج نہیں کروا سکتے۔ جبکہ قائدین آتے ہیں۔ بھاشن دیتے ہیں اور خان کا تاج اپنے سر پر چمکا کر چلے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے اپنے بچے سڑکوں پر کیوں نہیں آتے۔
ان کارکنوں کے مطابق ہم احتجاج اپنے طریقے سے کریں گے اور شاید لبرٹی مارکیٹ کے بجائے دوبارہ سولائزڈ پروٹیسٹ ڈیفنس میں شروع کریں۔ ان نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے لاہور میں مقیم جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی ایک خاتون رکن اسمبلی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’خان تک ان نوجوانوں اور حقیقی کھلاڑیوںکی آواز پہنچنے ہی نہیں دی جاتی۔ اور اگر پہنچتی ہے تو خان کو سمجھ کیوں نہیںآتی کہ حقیقی فورس کون ہیں؟ خدشہ ہے کہ یہ صورتحال مزید جاری رہی تو کارکن سڑکوں پر آنا چھوڑ دیں گے اور صرف خان کی آمد پر ہی سڑکوں پر نکلیں گے۔ اس کا اندازہ راولپنڈی میں خان کی لانگ مارچ کی قیادت سے ہوگا۔ جب لوگ صرف خان کیلئے نلکیں گے۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اب لانگ مارچ کی قیادت سنبھالنے والے خود ہی اس کا بیڑا غرق کردیں۔ کیونکہ ان میں سے یادہ تر تو اس لانگ مارچ کے حق میں ہی نہیں تھے‘‘۔
پی ٹی آئی کے ایک دیرینہ رہنما نے بتایا کہ جب پی ٹی آئی میں احسن رشید جیسے لوگ تھے تو وہ کارکنوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے اور کارکن ایسے رہنمائوں کی قدر کرتے تھے۔ مگر اب ان نوجوانوں کو لیڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ لہذا بہتر یہی ہوگا کہ نوجوانوں کو قیادت سونپی جائے اور مخصوص عناصر سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے کچھ حلقوں میں شنید ہے کہ عمران خان نے لانگ مارچ جاری رکھنے کا فیصلہ کسی مشاورت کے بغیرکیا ہے اور مارچ شروع کرنے کے دن کا انتخاب ’’روحانی‘‘ اندازے کی روشنی میں کیا گیا۔ جبکہ قبل ازیں وہ کچھ ’’روحانی‘‘ ہدایات نظر انداز کرچکے تھے۔