محض کارکنان کی مرضی پر گرفتار نہیں کر سکتے،فائل فوٹو
محض کارکنان کی مرضی پر گرفتار نہیں کر سکتے،فائل فوٹو

پنجاب پولیس کی ناراضگی پرلانگ مارچ موخرکیا گیا

نواز طاہر/ احمد خلیل جازم:
پی ٹی آئی چیئرمین عمران کے ’یو ٹرن ‘ کی طرح پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھی پولیس کے خلاف بیان دینے کے بعد ردِ عمل دیکھ کر’یو ٹرن‘ لے لیا ہے۔ جبکہ صوبائی سیکورٹی اداروں اور پولیس کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے ہی پی ٹی آئی نے لانگ مارچ مزید دو روز کیلیے موخر کیا۔ جو اب جمعرات کو شروع ہوگا۔

یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزیر آباد کے واقعے پر پی ٹی آئی کی منشا کے مطابق مقدمہ درج نہ ہونے پر اپنی ہی پنجاب حکومت کے انسپکٹر جنرل پولیس پر برستے ہوئے سخت ترین الفاظ استعمال کیے تھے اور پولیس کی وردی کیلئے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس بیان پر محکمہ پولیس میں شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا اور اسے شہدا کی قربانیوں کی توہین قرار دیا گیا تھا۔ ایک طرف پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اس بیان کی نہ صرف مزاحمت و مذمت کی گئی تھی۔ بلکہ پنجاب حکومت کی اتحادی جماعت سمیت ذمہ داران سے اس بیان کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

پولیس ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ وزیر آباد کا واقعہ افسوسناک ہے۔ اِس سانحے پر سیاسی جماعت کی طرف سے الزامات کی نوعیت اور ان کی حساسیت کے پیشِ نظر مقامی پولیس کی طرف سے انتہائی احتیاط ناقابلِ فہم نہیں۔ حساس قومی اور سیاسی تنازعات سے جڑے مقدمات میں احتیاط بھی کوئی نئی بات نہیں۔ پولیس سیاسی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ حکومت سے توقع ہے کہ حکومت میں شامل جماعت کے رہنما کی طرف سے پولیس کی وردی کی توہین کا نوٹس لیا جائے گا۔

علاوہ ازیں انسپکٹر جنرل پولیس فیصل شاہکار نے اس توہین آمیز بیان کے بعد پنجاب میں مزید کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کی خدمات پنجاب سے واپس لے لی جائیں۔ وہ یہاں مزید فرائض انجام نہیں دینا چاہتے۔ اس درخواست پر مرکزی حکومت (اسٹیبلشمنٹ ڈویژن) کی طرف سے تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا اور ضابطے کے تحت فیصل شاہکار نے اپنی ذمہ داریاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق دو روز سے محکمہ پولیس میں پی ٹی آئی کے بارے میں (ذاتی حیثیت میں) مثبت سیاسی خیالات و ہمددردی رکھنے والوں بالخصوص نوجوان اہلکاروں اور افسران میں اضطراب دیکھا گیا ہے اور ان کی رائے میں بھی تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب اسمبلی میں پولیس کے ساتھ روا رکھے جانے والے طرزِ عمل کے بعد پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین پولیس کے بارے میں سخت ترین خیالات اور رائے کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اس ضمن میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس کے بیان کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی سے اپنا بیان واپس لینے اور معذرت کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ جس پر انہوں نے ابتدائی طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور جب باور کرایا گیا کہ ابھی لانگ مارچ ہونا ہے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے بہت سا کام لیا جانا ہے، تووہ خاموش ہوگئے اور پھر پریس کانفرنس کرکے اپنے موقف کی وضاحت کی کہ ’میں نے پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔ بلکہ صرف آئی جی پنجاب کے حوالے سے کہا تھا کہ آپ آئی جی پنجاب ہیں تو آپ کا ڈی پی او آپ کی بات نہیں سنتا‘۔ جب ان سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے نجی محفلوں میں کی جانے والی گفتگو کے برعکس کہا کہ چودھری پرویز الٰہی ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کی ناراضگی اپنی جگہ۔ سیکورٹی ادارے بھی شاہ محمود قریشی کے بیان سے خوش نہیں۔ یہی سبب ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنا لانگ مارچ کا شیڈول تبدیل کر دیا۔ اور نیا اعلان کیا گیا کہ اب لانگ مارچ جمعرات کو وزیر آباد سے ہی شروع ہوگا۔ تاہم اس شیڈول میں مزید کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ جبکہ کارکنوں کو سڑکوں پر آنے کی ہدایت پر پیر کے روز صوبے کے زیادہ تر شہروں میں قابلِ ذکر عمل نہیں کیا گیا۔ البتہ راولپنڈی، گوجرانوالہ فیصل آباد، ملتان میں کہیںکہیں چھوٹے موٹے مظاہرے ہوئے۔ جبکہ لاہور میں پیر اور منگل کی شب یہ سطور لکھے جانے تک مال روڈ بند تھا اور پی ٹی آئی کے کارکنان پنجاب کی صدر اور صوبائی صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی قیادت میں گورنر ہائوس کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ شیڈول کے تحت پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر ابھی وہاں نہیں پہنچے تھے۔ مظاہرہ شروع ہونے سے پہلے ٹریفک پولیس کے سربراہ نے متبادل راستوں کے ڈائیورشنز پوائنٹس پر پولیس اہلکاروں کو ضروری ہدایات دیں اور تنبیہہ کی کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور راہگیروں سے الجھنے کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
ادھر ذرائع نے خیبر پختون سے لانگ مارچ میں مسلح جتھے شامل ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ جس پر اسلام آباد پولیس نے سندھ پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کو دوبارہ طلب کرلیا ہے۔ تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ مظاہرین زیادہ شدت کے ساتھ اسلام آباد میں داخلے کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیر داخلہ اور تحریک انصاف کے رہنما پرویز خٹک نے جہاں یہ کہا کہ ’’پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستے بند کریں گے۔ وہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خیبرپختون کو چار ریجن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جنوبی اضلاع میں ڈی آئی خان تک لانگ مارچ کی قیادت علی امین گنڈاپورکریں گے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں مراد سعید اور ہزارہ میں لانگ مارچ کی قیادت اسد قیصر اور شاہ فرمان سمیت وہ خود کریں گے۔ لانگ مارچ کے تمام قافلے 11 سے 14 دن تک راولپنڈی پہنچیں گے۔ جس کی قیادت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان خود کریں گے۔ یاد رہے کہ عمران خان خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد لانگ مارچ اپنے ٹھیک ہونے تک موقوف کرچکے تھے۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو ایک اہم ترین شخصیت کے پیغام کے بعد یہ لانگ مارچ فوری طور پر دوبارہ شروع کرنا پڑا اور یہ کہ پیغام لانے والی شخصیت بھی بہت اہم تھی۔ اسی تناظر میں لانگ مارچ پہلے سے زیادہ شدت سے جاری کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔

ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس پیغام رسان نے یہ بھی باور کرایا ہے کہ اب تک کا لانگ مارچ پھسپھسا تھا۔ جس میں لوگوں کی عدم دلچسپی یہ ظاہر کرتی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے ہوم ورک نہیں کیا۔ اپنے علاقوں سے لوگوں کو نکالنے میں ناکام رہے۔ خاص طور پر آخری میٹنگ میں پنجاب کے رہنمائوں پر عمران خان اسی تناظر میں برستے رہے۔ چنانچہ اب طے کیا گیا ہے کہ لانگ مارچ دوبارہ شروع کیا جائے اور اس مرتبہ لوگوں کو ہر قیمت پر باہر لایا جائے۔ یہ لانگ مارچ آرمی چیف کی تعیناتی تک جاری رہے گا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کا پنڈی سے لانگ مارچ جوائن کرنا بھی بہت سے معاملات سے پردہ اٹھاتا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت نے اس مرتبہ بھی لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کے خاطر خواہ انتظامات کر رکھے ہیں۔

وزارت داخلہ میں گزشتہ شب وفاقی پولیس کے چند سینئر افسران کی میٹنگ ہوئی۔ جس میں لانگ مارچ کو روکنے کی حکمت عملی مرتب کی گئی۔ اس مرتبہ ایف سی، رینجرز اور سندھ پولیس کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی متحرک ہوسکتے ہیں۔ جو تحریک انصاف کے ان لیڈران کو ہینڈل کریں گے جن پر فنڈنگ اور جلائو گھیرائو کا شبہ ہے۔ ان کی لسٹیں پہلے سے بنی ہوئی ہیں اور ہو سکتا ہے جلد ان لوگوں کی گرفتاریاں شروع کردی جائیں۔ وفاقی پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس سمیت تمام دیگر فورسز کے اہلکار جو جا چکے تھے یا جانے کی تیاری کر رہے تھے، انہیں دوبارہ بلا لیا گیا ہے اور لانگ مارچ کو روکنے کی مشقیں بھی دوبارہ شروع کردی گئی ہیں۔

وفاقی پولیس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے آنے والے قومی اور بین الاقوامی مہمانوں کیلئے راستے کھلے رکھے جائیں گے۔ چونکہ ائیر پورٹ کیلئے بلا رکاوٹ آمد و رفت قومی تشخص کیلئے اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے یہ راستے بند نہیں کیے جائیںگے۔ البتہ وفاقی قانون نافذ کرنے والے ادارے ائیرپورٹ اور موٹر وے تک آمد و رفت کے راستوں کی نگرانی کریں گے۔ تمام سیاسی احباب سے گزارش ہے کہ انتظامیہ سے اجازت کے ساتھ مختص مقام پر احتجاج کریں اورعوام سے گزارش ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں۔

پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبرپختون سے آنے والے مظاہرین ڈنڈے اور غلیلیں ساتھ لائیں گے۔ ذرائع یہ نے دعویٰ بھی کیا کہ اس سے پہلے تحریک انصاف کے رہنما اسلحے کے حوالے سے شش و پنج کا شکار تھے۔ تاہم اب یہ بات وضاحت کے ساتھ طے ہوگئی کہ اس مرتبہ اسلحہ اور مسلح جتھے ضرور ساتھ لائے جائیں گے۔ جو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ ڈنڈے، پتھروں کے ساتھ ساتھ گولی کی زبان میں بھی جواب دیں گے۔ جتھے لانے کی ذمہ داری علی امین گنڈا پور سمیت پشاور کے ایک لوکل رہنما کے ذمے لگائی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں کافی تعداد میں فورسز تعینات ہیں۔ ہوسکتا ہے نیم فوجی دستے بھی بلا لیے جائیں۔ ریڈ زون کی حفاظت ایف سی اور رینجرز سے لے کر فوج کے حوالے کرنے پر بھی سوچ بچار کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے جلد فیصلے متوقع ہیں۔