محمد قاسم:
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیلیے پیش کی جانی والی امریکا کی شرائط مسترد کرتے ہوئے افغان حکومت نے شمال میں دو اڈے دینے سے انکارکردیا ہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار نے طالبان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اتحادیوں کے ذریعے شمال میں اڈوں کا حصول جاری رکھے ہوئے ہے۔ ادھر امریکہ اور طالبان حکومت کے خفیہ اداروں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے بعد روس کی جانب سے شدید ردعمل دیا گیا ہے اور ماسکو نے طالبان حکام کو کانفرنس میں مدعو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق افغان طالبان حکومت کے خفیہ ادارے کے سربراہ مولوی واثق اللہ اور سی آئی اے کے نائب ڈائریکٹر کے درمیان قطر میں چند ہفتے قبل ہونے والی ملاقات میں امریکہ نے پیش کی تھی کہ اگر طالبان غیر مسلح ڈرون کیلئے شمالی افغانستان میں دو اڈے فراہم کر دیں۔ جس کا انتظام امریکہ اور طالبان حکومت کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھ میں ہو اور یہ صرف شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ، القاعدہ اور افغانستان کے پڑوسی ممالک کی نگرانی کریں تو اس کے بدلے میں طالبان کی حکومت تسلیم کرلی جائے گی۔ علاوہ ازیں طالبان رہنماؤں کے سروں پر موجود انعامات بھی واپس لے لئے جائیں گے۔ تین ارب ڈالر فوری ریلیز کیے جائیں گے۔ جبکہ طالبان کے ساتھ ویت نام جیسے کاروباری تعلقات کو بھی وسعت دی جائے گی۔ جس پر طالبان وفد نے یہ تجاویز رہبر شوریٰ کے سامنے رکھنے کی یقین دہانی کرائی کہ طالبان حکومت میں کوئی کام بغیر شوریٰ کے اجازت کی نہیں ہوتا۔
ذرائع کے مطابق چند روز قبل رہبر شوریٰ نے تمام وزرا کی کارکردگی کے دوران یہ بات سامنے رکھی۔ جس پر طویل غور و خوض کے بعد امریکی پیشکش کو مستردکردیا گیا اور کہا گیا کہ امریکہ اس خطے سے نکلنے کے بعد کسی طرح دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ جو منظور نہیں۔ طالبان کے سربراہ مولوی ہبیت اللہ اخونزاد نے شوریٰ اور وزرا کو بتایاکہ اسلام کی رو سے دوحا معاہدے پر طالبان کو عملدرآمد کرنا ہوگا۔ حالانکہ امریکہ مسلسل اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ شوریٰ کے فیصلے کے بعد امریکی پیشکش مستردکردی گئی۔ جبکہ پیشکش مسترد کرنے کے بعد طالبان رہنماؤں کو مزید احتیاط برتنے کی تاکید کی گئی ہے۔
دوسری جانب حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار نے طالبان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ شمالی افغانستان میںکچھ عرصے سے ڈرون اڈوں کے حصول میں لگا ہوا ہے۔ کیونکہ امریکہ کو احساس ہوگیا ہے کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد ایران، چین، وسط ایشیائی ممالک اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے حوالے سے اس کی نگرانی کا عمل کمزور ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دوبارہ کسی نہ کسی صورت افغانستان میں آنا چاہتا ہے۔ طالبان نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ افغانستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور نہیں کسی کوکرنے دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومتی اہلکاروں اور امریکی اہلکاروں کی تربیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ امریکہ جاسوسی نظام قائم کرکے روس اور چین کے ساتھ افغان حکومت کی تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ جس سے مشکلات بڑھیں گی۔
دوسری جانب امریکی اور طالبان حکام کی خفیہ ملاقات کی اطلاعات پر روسی وزارت دفاع کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ روسی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نکولائے یاتروشیوف نے کہا کہ طالبان کے ذریعے امریکہ خطے میں بدامنی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لہذا روس طالبان کو کانفرنس میں مدعو نہیں کرے گا۔ جس پر طالبان کے وزرات خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے شدید ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے ایک جاری بیان میں کہا کہ امارات اسلامیہ سوویت یونین کی شکست کے بعد اسلامی نظام کے قیام کیلئے اپنی ملک میں اٹھی تھی۔ برسوں کی طوائف الملوکی اور انتشار کے بعد جارح افواج کو شکست دی اور طویل جائز جدوجہد کے بعد کامیابی حاصل کرلی۔ امارات اسلامی روس میں افغانستان سے متعلق کانفرنس کو طالبان حکومت کی نمائندگی کے بغیر نامکمل سمجھتی ہے۔ خوش قسمتی سے افغانستان میں اب ایک آزاد و خود مختار اور افغانوں کی نمائندہ حکومت موجود ہے اور اس حکومت نے نہ صرف امن و امان قائم کیا ہے۔ بلکہ سرحدوں کو محفوظ بنانے، پڑوسیوں اور عالمی دنیا کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے شعبوں میں مثبت تعلقات بنانے میں بھی کامیابی ہوئی ہے۔ اس لئے ایسی کانفرنسوں میں افغان حکومت کو مدعو نہ کرنے سے سے منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان کیلئے روسی صدر پیوٹن کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے کہا ہے کہ رواں ماہ روس افغانستان سے متعلق ایک کانفرنس کی نمائندگی کر رہا ہے۔ جس میں چین، پاکستان، ازبکستان، انڈیا اور ایران کے نمائندے شرکت کریں گے۔ جبکہ افغان حکومت کو فی الحال دعوت نہیں دی گئی۔ جس پر طالبان روس سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ ’’امت‘‘ کو اہم ذرائع نے بتایا کہ قومی امکان ہے کہ طالبان حکومت کے نمائندوں کو دعوت دی جائے گی۔ طالبان نے روس میں جاکر لڑنے والوں کو متنبہ کیا ہے کہ اپنے ملک کی تعمیر نو میں حصہ لینا ضروری ہے۔ روس یوکرین جنگ سے دور رہا جائے۔ مستقبل میں افغانستان کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔