سی ٹی ڈی کو مزید طاقتور بنانے کے منصوبے پرکام شروع

عمران خان:
حکومت سندھ نے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو مزید طاقتور بنانے کے منصوبے پرکام شروع کردیا ہے۔ جس کا ٹاسک آئی جی سندھ کو دیا جا چکا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ کو جدید خطوط پر بھی استوار کیا جارہا ہے۔ جس میں جلسے جلوسوں، ہنگامہ آرائی اور دنگے فساد کے دوران جمع ہونے والے افراد کا ڈیٹا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے حاصل کرنا شامل ہے۔ تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں تفتیش آسان بنائی جا سکے۔ اسی طرح صوبے بھر کے مطلوب ملزمان کے ڈیٹا سے متعلق ریڈ بک کے بعد اب بلیک بک بنائی جائے گی۔ جس کی تیاری حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اسی طرح سی ٹی ڈی کے ڈھانچے کی اپ گریڈیشن پر تیزی سے کام کو نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت اہم تکنیکی اور تعمیراتی وسائل کی فراہمی اور سندھ کے مزید چار بڑے شہروں میں ایس ایس پی، سی ٹی ڈی کے دفاترکا قیام شامل ہے۔ ذرائع کے بقول سی ٹی ڈی کو انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی سطح کا ادارہ بنانے کے لئے بجٹ بھی مختص کردیا گیا ہے۔
کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کو مزید طاقتور اور جدید خطوط پر استوار کرنے سے متعلق منصوبے کے بارے میں ’’امت‘‘ کو سندھ پولیس کے اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ صوبے میں سنگین جرائم میں ملوث انتہائی مطلوب ملزمان کی’’ریڈ بک‘‘ کے بعد اب ’’بلیک بک‘‘ کی تیاری بھی حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ جس میں اب ملزمان کی تصاویر کے علاوہ وہ دیگر بنیادی معلومات بھی شامل ہوں گی۔ جو حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے اپ ڈیٹ ہونا باقی رہ گئی ہیں۔ یہ مرحلہ مکمل کرکے بلیک بک کا ڈیٹا آئی جی سندھ کے توسط سے صوبے کے تمام شہروں کی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کر دیا جائے گا۔ قبل ازیں ریڈ بک کا ڈیٹا متعلقہ ڈیپارٹمنٹ تک محدود رہتا تھا۔ بلیک بک کی شکل میں اب انتہائی مطلوب ملزمان کا ڈیٹا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی شیئر کیا جائے گا۔
ذرائع کے بقول ریڈ بک میں کالعدم عسکری اور علیحدگی پسندتنظیموں کے وہ انتہائی مطلوب دہشت گرد شامل ہیں۔ جو فرقہ وارانہ، لسانی اور ریاستی دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ان میں وہ دہشت گرد شامل ہیں۔ جن کے سروں پر وفاقی حکومت کی جانب سے انعام مقرر کیا گیا ہے۔ جبکہ ایسے دہشت گرد بھی ہیں جن پر انعام نہیں ہے۔ تاہم وہ سنگین مقدمات میں انتہائی مطلوب ہیں۔ اس کے برعکس نئی بلیک بک میں صرف ان ملزمان کو شامل کیا گیا ہے۔ جن پر صوبے کے ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے انعام مقرر کیا گیا ہے۔ ان میں اغوا برائے تاوان کے نیٹ ورک چلانے اور کچے کے علاقوں سے نکل کر ڈکیتیاں کرنے والے ملزمان شامل ہیں۔ جبکہ صوبے کے مختلف علاقوں میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں کے ملزمان کو بھی بلیک بک میں شامل کیا گیا ہے، جن کے سروںکی قیمت مقرر ہے۔
ذرائع کے بقول یہ تمام اقدامات سندھ کے اہم شہروں کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، شکارپور، بدین، ٹھٹھہ اور دیگر میں مستقل امن قائم رکھنے اور دہائیوں سے سرگرم جرائم پیشہ گروپوں کے خاتمے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ کیونکہ سی پیک منصوبے کے لئے ان شہروں میں مستقل امن ضروری قرار دیا گیا ہے اور چین کی بھی یہی خواہش ہے۔
ذرائع کے مطابق کچے کے ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ افراد کے زیر اثر سندھ کے مضافات اور دور دراز علاقے اور خاص طور پر دریائے سندھ ڈیلٹا کے جنگلات، دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں اغوا برائے تاوان کے ذریعے فنڈز جمع کرنے والے عناصر اور دیگر جرائم پیشہ متحارب گروپ شامل ہیں۔ گروپوں کے روپوش کارندے انہیں بم تیار کرنے اور اسلحہ جمع کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اسلحہ اور گولہ بارود علیحدگی پسند تنظیموں کو وارداتوں کے لئے فراہم کیا جاتا ہے۔ ان مقامات پر رسائی چونکہ مشکل ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں سرگرم افراد کے موبائلوں اور ڈیوائسز کا ڈیٹا حاصل کرکے ان کی شہروں میں موجودگی کو ٹریس کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ تاکہ قبل از وقت وارداتوں کو ناکام بنانے کے ساتھ انہیں گرفتار کیا جا سکے۔
ذرائع کے بقول سندھ حکومت کی جانب سے پولیس کے اس خصوصی تحقیقاتی شعبے کو مزید موثر بنانے کے لئے جدید خطوط پر استوار کرنے میں دلچسپی لی جا رہی ہے۔ ملک کے معاشی مرکز کراچی کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سندھ حکومت کی ایپکس کمیٹی میں شامل دیگر حساس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی یہی تجاویز رکھی گئیں کہ سندھ پولیس کو بدلتے اور جدید جرائم کی مناسبت سے تیار کیا جائے۔ جس میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال سب سے اہم ہے۔
ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر عمل در آمد کے لئے ہی سندھ پولیس کے خصوصی تحقیقاتی شعبے کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جو پہلے ہی دو دہائیوں سے مسلح کالعدم دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کے قلع قمع کے لئے کام کر رہا ہے۔ تاہم اس کا فوکس ہمیشہ کراچی ہی رہا ہے۔ اب دائرہ کار بڑھایا جائے گا۔ ابتدائی طور پر کراچی میں سن دو ہزار کی دہائی کے دوران سرگرم مسلح گروپوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف سی ٹی ڈی سول لائن، سی ٹی ڈی گارڈن اور سی ٹی ڈی، ڈی آئی جی آفس متحرک رہا۔ دو ہزار پندرہ کے بعد سی ٹی ڈی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اس کا ایک ضلعی دفتر ملیر سعود آباد ہیڈ کوارٹر میں بھی قائم کیا گیا۔ تاہم دو ہزار بیس تک یہ دائرہ کار بڑھا دیا گیا۔ اور سندھ کے دیگر شہروں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں پر تحقیقات کراچی سے مانیٹرنگ کی جاتی رہیں۔ معلومات کے لئے سندھ پولیس کے ضلعی نظام پرانحصار کیا جاتا تھا۔ جبکہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں کراچی سے ہی روانہ ہوتی رہیں۔ دو ہزار بیس کے بعد رونما ہونے والی دہشت گردی کی کئی وارداتوں، جن میں چینی شہریوں، قونصل خانے، اسٹاک ایکسچینج، کراچی یونیورسٹی، چینی ڈینٹل کلینک اور دیگر مقامات کو نشانہ بنایا گیا، کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ دہشت گرد گروپوں نے سندھ کے دیگر کئی شہروں اور کچے کے علاقوں میں سرگرم ڈاکوئوں کے زیراثرعلاقوں میں اپنے سلیپر سیل قائم کرلیے ہیں۔ جہاں دہشت گردی کے منصوبوں کی پلاننگ کے علاوہ اس پرعمل درآمد کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔

اس انکشافات کے بعد حیدر آباد، لاڑکانہ، نیو بینظیر آباد اور سکھر میں ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کراچی کے ماتحت ایس ایس پیز تعینات کیے گئے۔ تاہم یہ افسران یا تو ڈسٹرکٹ پولیس کے ڈی پی اوز اور آرپی اوز کے دفاتر میں بیٹھ رہے ہیں یا پھر کسی پرائیویٹ عمارت کو کرائے پر لے کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سی ٹی ڈی کو ایک مکمل اور وسیع تحقیقاتی ادارہ بنانے کے لئے گزشتہ دنوں تین ارب روپے سے زائد کے بجٹ کی منظوری دی گئی ہے۔ اس بجٹ سے سندھ کے چار شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور نیوبینظیر آباد میں سی ٹی ڈی کے ایس ایس پیز کے لئے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے سرکاری دفاتر قائم کئے جا رہے ہیں۔ جہاں ان کے ماتحت افسران اور اہلکاروں کی معقول تعداد بھی مہیا کی جا رہی ہے۔ جبکہ ان ریجنل دفاتر کی ٹیموں کو درکار گاڑیاں، لوکیٹر اور دیگر تکنیکی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

قبل ازیں پورے سندھ کے معاملات کراچی میں سی ٹی ڈی کے تین دفاتر سے دیکھے جارہے تھے۔
اب تک تیس کروڑ روپے کے اخراجات سے سی ٹی ڈی کو کئی جدید آلات فراہم کئے جاچکے ہیں۔ ان میں ایسی ٹیکنالوجی شامل ہے، جس کو استعمال کرکے جلسے، جلوسوں، دنگے فساد کے دوران ایک جگہ جمع ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا جمع کیا جاسکتا ہے۔ ان کی تعداد کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ مجمع میں شریک افراد کن علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے روز کے معمولات اور مستقبل کی نقل و حرکت کو بھی مانیٹر کیا جا سکے گا۔ اس ٹیکنالوجی سے کسی بھی واردات کے موقع پر اور اس کے بعد جمع ہونے والے افراد کا ڈیٹا حاصل کرکے ملزمان تک فوری رسائی ممکن ہوسکے گی۔