نواز طاہر:
تحریکِ انصاف نے اپنے لانگ مارچ میں تبدیلیوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا۔ بلکہ اب اس لانگ مارچ کو غیر اعلانیہ طور پر پولیس اورسیکورٹی اداروں کی کڑی نگرانی میں جلسوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ مرکزی قیادت کو دو الگ الگ مقامات سے مارچ کی قیادت کی پالیسی بھی تبدیل کرکے انہیں ایک ہی کنٹینر پر بٹھا دیا گیا ہے۔ جبکہ توار کو ایک روز کی چھٹی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی پنجاب نے عمران خان کی غیر موجودگی میں ان کے بیٹوں کو کنٹینر میں قیادت کے ساتھ والد کی نمائندگی کا مشورہ دے دیا ہے۔ یاد رہے کہ تین نومبر کو وزیرآباد میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک کارکن کی ہلاکت اور عمران خان سمیت پندرہ افراد کے زخمی ہونے کے بعد لانگ مارچ روک دیا گیا تھا اور منگل کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بعد میں مزید جمعرات تک موخر کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ لانگ مارچ اللہ ہو والا چوک سے ہی شروع ہوگا۔ جس کی قیادت وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کریں گے۔ لیکن اس میں پاٹی کے اندر ہی قیادت کا اختلافِ رائے سامنے آنے پر اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ وزیرآباد سے مارچ کی قیادت مخدوم شاہ محمود کو ہی سونپی گئی اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے چلنے والے قافلے کی قیادت پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمرکو دی گئی ہے۔ لیکن جمعرات کو اس میں بھی تبدیلی کردی گئی اور اسد عمر بھی مخدوم شاہ محمود کے ساتھ کنیٹنر پر سوار ہوگئے۔
جمعرات کو طے شدہ پروگرام سے قبل پنجاب پولیس کی طرف سے مارچ کے قائدین اور شرکا کی سیکورٹی کے حوالے سے خصوصی طور پر ایس او پیز جاری کیے گئے۔ جن میں کارکنوں کی تلاشی لازم قرار دی گئی اور اسلحہ کی نمائش پر بھی سختی سے پابندی لگائی گئی۔ پولیس کے ایس او پیز کے تحت ہی بیس ہزار سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔ اسپیشل برانچ، سی ٹی ڈی اور ضلعی پولیس نے لانگ مارچ کے روٹ پر سرچ اینڈ کومبنگ آپریشنز کی ریہرسل بھی کی۔ مختلف عمارتوں پر کمانڈوز اور اسنائپر تعینات کیے گئے۔ لانگ مارچ میں آنے والے شرکا کے اسلحہ بردار پرائیویٹ گارڈز کا داخلہ ممنوع قرار دینے اور ہوائی فائرنگ پر پابندی کے حوالے سے بھی قافلوں کی قیادت کرنے والوں کو آگاہ کیا گیا۔ کنٹینر پر بلٹ پروف شیشے اور روسٹرم پہنچا دیئے گئے ہیں۔ کنٹینر کے ارد گرد سیکورٹی کا خصوصی حصار بنایا گیا ہے اور غیر متعلقہ افرادکی کنٹینر تک رسائی کے امکانات ختم کردیئے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو پنجاب پولیس کا خصوصی اسکواڈ فراہم کیا گیا اور اسی اسکواڈ کی مدد سے کنٹینر پر سوارکرایا گیا۔ جلسہ گاہ اور ملحقہ قریبی علاقوں کو سیکورٹی کیمروں سے کور کیا گیا۔ جس کی نگرانی سنٹرل پولیس آفس میں قائم کنٹرول روم میں کی گئی۔
تمام حفاظتی انتظامات مکمل کرنے کے بعد قائدین کو آگاہ کیا گیا۔ جس کے بعد گوجوانوالہ، سیالکوٹ، سمبڑیال، حافظ آباد، علی پور، احمد نگر، گجرات اور منڈی بہائوالدین کے مختلف علاقوں سے آنے والے قافلوں کے شرکا کو مختلف داخلی راستوں پر اسکینر گیٹ سے گزرنے کے بعد جلسہ گاہ تک جانے کی اجازت دی گئی۔ مقامی افراد کو بھی سخت چیکنگ کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ قائدین کے پہنچنے سے پہلے چھ سے ساتھ ہزار افراد جمع ہوچکے تھے۔ جن کی تعداد عمران خان کے خطاب تک آٹھ ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ شیڈول کے برعکس لانگ مارچ کا آغاز نہیں کیا گیا۔ بلکہ تمام انتظامات کچہری چوک میں کیے گئے۔ جہاں تین نومبر کو عمران خان نے پہنچنا تھا۔ اسی مقام پر کنٹینر پر قائدین سوار ہوئے۔ جن میں سینیٹر اعظم سواتی بھی شامل تھے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ کنٹینر پر حملہ آور نوید کو پکڑنے والے پی ٹی آئی کے کارکن ابتسام کو بھی لانے کا پروگرام بنایا گیا تھا اور کچھ دیر کیلئے پی ٹی آئی کے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے کارکن معظم گوندل کے بچوں کو بھی لایا جانا تھا۔ ذرائع کے مطابق مقامی پارٹی کے عہدیداروں نے اس قافلے کیلئے جو پروگرام ترتیب دیئے تھے۔ وہ سب تبدیل کردیئے گئے اور بتایا گیا کہ یہ تبدیلی سیکورٹی امور کے پیشِ نظر کی گئی ہے۔ لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے قائدین کے کنٹینر کیلئے جو ایس اوپیز طے کئے تھے۔ ان پر پوری طرح سے عمل نہیں کیا گیا اور تمام قائدین نے بلٹ پروف روسٹرم کے بجائے کیبن کے نیچے کھلی جگہ پر کھڑے ہوکر تقاریر کیں اور وہیں عمران خان کا مواصلاتی خطاب بھی سنا۔ جس کے بعد یہ جلسہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اعلان کے مطابق جمعہ کو یہ جلسہ گجرات میں ہوگا۔ یہ سطور لکھے جانے تک کنٹینر گجرات نہیں پہنچا تھا۔
وزیر آباد میں جلسہ ختم ہونے کے دس سے پندرہ منٹ کے اندر کچہری چوک خالی کردیا گیا۔ اس جلسے کے دوران عمران خان کے بیٹوں کی آمد کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر زیر بحث رہیں۔ بعض کارکناں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ عمران خان کی جگہ ان کے بیٹے والد کی نمائندگی کیلئے کنٹینر پر سوار ہوں گے۔ لیکن بیشتر کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہوگا اور وہ دو ایک روز بعد اپنی والدہ کے پاس واپس چلے جائیں گے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکریٹری اور پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ نے عمران خان کے دونوں بیٹوں کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہا ہے اور اپنے خیر مقدمی بیان میں کہا ہے کہ امید ہے عمران خان کی اولاد آج سے لانگ مارچ کو لیڈ کرے گی۔ کپتان کے بیٹوں کا کارکنان کے بچوں کیساتھ لانگ مارچ میں شانہ بشانہ چلنا خوش آئند ہوگا۔ دعا ہے کہ عمران خان کی اولاد برطانیہ چھوڑکر پاکستان اور پاکستانی عوام کو اپنائیں۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم کے بیٹوں کی آمد کے بعد عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کی سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے بجائے آئندہ صرف جلسے ہی ہوا کریں گے۔