نمائندہ امت:
عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم نوید احمد کو پنجاب پولیس اب تک مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کرسکی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس تاخیر سے کیس خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کرنے سے پولیس ملزم اور قانونی سسٹم، دونوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ قانون کے مطابق ایف آئی آر ہوجانے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ کہا جاتا ہے کہ پولیس ملزم کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ ایف آئی آر میں دفعہ 788 لگائی گئی ہے، جس کے تحت یہ کیس اسپیشل کورٹ یعنی اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں چلایا جائے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایسے کسی بھی کیس میں فوری طور پر مدعی کی مدعیت میں ایف آئی آر کاٹی جانا بہت ضروری ہے، جو مدعی کے بجائے ایک پولیس اہلکار کی مدعیت میں کاٹی گئی۔ اس لیے کیس کافی کمزور ہے، جس کا ملزم کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ دوسری صورت میں ملزم کے وارثان، عدالت سے درخواست کرسکتے ہیں کہ ہمارے بندے کو پولیس نے غیر قانونی طور پر اٹھا لیا ہے اور اسے عدالت کے سامنے پیش نہیں کر رہے، جس پر عدالت بیلف کے ذریعے ملزم کو بازیاب کراتی ہے۔ پنجاب پولیس نے یہ کیس قانون کے بالکل الٹ چلایا ہے۔
ہائی کورٹ کے وکیل خرم شہزاد جنجوعہ نے نے اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’ایسے کیسزز میں پولیس کوچوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ایف آئی آر درج کرانا ضروری ہوتا ہے اور یہ کام مدعی کا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پرکئی روز گزرنے کے باوجود مدعی نے ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔ بلکہ ملزم پولیس کسٹڈی میں رہا اور بعد ازاں ایک سب انسپکٹر کی مدعیت میں پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ پہلا کمزور پوائنٹ تو یہیں سے شروع ہو جاتاہے۔ پھر بعد میں فوری طور پر جوڈیشل ریمانڈ کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا۔ مجسٹریٹ کا یہ کام ہوتا کہ وہ کیس کی پروسیڈنگ کراتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ کوئی چھوٹی غلطی نہیں ہے، اگر فوری ریمانڈنہیں لیا گیا تو یہ قانون سے بالاتر کام کیا گیا ہے۔ اسے ہم قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں، بلکہ قانون سے بالاتر کام کہیں گے۔ دیکھیں پولیس نے ان رائیٹنگ گرفتاری تک نہیں ڈالی، اگر گرفتاری ڈال دی ہے اور ریمانڈ نہیں لیا تو یہ پھر پولیس نے مزید بہت بڑا قانونی بلنڈر کیا ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ دفعہ 302/88 کے ساتھ 788 کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے، یعنی اقدام قتل نہیں بلکہ قتل کی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے جس میں فائرنگ سے ایک شخص قتل ہوا تھا، کہا جارہا ہے کہ وہ قتل بڑی گن سے ہوا ہے، لیکن اس شخص کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔ کیس میں اس سے کیا فرق پڑے گا۔ جواب میں خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ’’اس کے لیے مقتول کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کے آرڈر جاری کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی پولیس کا کام تھا کہ مقتول کی باڈی کا پوسٹ مارٹم کراتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے لیے کسی مجسٹریٹ یا عدالت کی بھی ضرورت نہیں تھی، وہ پولیس کی تفتیش کا حصہ ہوتا ہے۔ اب اگر مقتول کا باڈی ایگزامن، میڈیکل ایگزامنر نے نہیں کیا، تو اس سے بھی کیس بہت زیادہ متاثر ہوگا اور یہ ملزمان کو ہی فائدہ دے گا۔ قانون کے مطابق ملزم کو فوری طور پر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے 164 کا بیان لیا جاتا ہے۔ اس بیان کی روشنی میں مجسٹریٹ ملزم کا ریمانڈ ایشو کرتا ہے۔ اس بیان پر ہی مجسٹریٹ انحصار کرتا ہے کہ پولیس نے ملزم سے مزید تفتیش کرنی ہے یا اسے جوڈیشل کرکے کیس آگے بڑھانا ہے۔ اب یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، آپ کیسے اس کیس کو آگے بڑھائیں گے۔ یہ تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرکے ملزم کو جان بوجھ کر فائدہ دیا جا رہا ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں اگر یہ کیس چلایا جاتاہے تو وہاں بھی یہ قانونی کمزوریاں مدنظر رکھی جائیں گی، تو ان کا کہنا تھا کہ’’وہاں پر اسپیشل لاء لگایا جاتا ہے۔ وہاں پر یہ فرق ہوتاہے کہ اینٹی ٹیررسٹ کور ٹ میں شارٹ ٹرم میں کیس کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ ان کا اپن اپروسیجر ہے۔ اگرچہ اس پر قانون لاگو ہیں، لیکن وہاں ٹرائل تیزی سے ہوتا ہے۔ اس کا فیصلہ کافی ایفیکٹو ہوتاہے۔ کورٹ کوئی بھی ہو، لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ملزم کو ریمانڈ کے لیے تو پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ دیکھیں پولیس جب آیف آئی آر درج کرتی ہے تو اس میں جرم کی نوعیت دیکھ کر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ اگر تو سادہ دفعات ہیں جیسے 302 وغیرہ تو عام کورٹ ہی ٹرائل کرے گا، لیکن اگر دفعہ 788 لگی ہے تو پھر کیس لامحالہ اینٹی ٹیررسٹ کورٹ کے ہی دائرہ سماعت میں آئے گا۔ یہاں پنجاب پولیس بالکل قانون کے مخالف چل رہی ہے۔ دوسری جانب اس کیس کے اصل مدعی نے جن پر الزامات عائد کیے ہیں، اس میں تو کرمنل ایکٹ ترمیمی بل کے تحت وہ خود 500 اے میں آئے گا، اگر اس کے پاس مضبوط ثبوت نہیں ہے۔ اسی لیے پنجاب میں اس کی کیس کی ایف آئی آر ایک عام سب انسپکٹر کی مدعیت میں درج کرکے عدالت کا حکم مانا گیا ہے۔ یہ معاملہ بہت پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق اب اس کیس میں ملزم کو ہرجانب سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ شخص جوڈیشل ہوکر بیل آئوٹ ہو جائے گا۔ کیونکہ پولیس نے کسی قسم کوئی ایسی ریکوری بھی نہیںعدالت میں پیش نہیں کی۔ بلکہ ابھی ملزم کو ہی پیش نہیں کیا تو ریکوری کا مذکور۔‘‘
ایڈوکیٹ فدا ہاشمی نے اس کیس کے حوالے سے بتایا کہ ’’ملزم کو ابھی تک مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہ کرکے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے، بلکہ پولیس نے اگر ابھی گرفتاری نہیں ڈالی تو پولیس اس کیس میں قصور وار کہلائے گی۔ اگر گرفتاری ڈال دی گئی ہے اور چوبیس گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے نہیں پیش کیا تو یہ بھی پولیس کا قصور کہلائے گا۔ یہاں کرمنل پروسیجر فالو نہیں کیا جا رہا۔ اب دیکھا جائے تو ملزم لیگل طور پر پولیس نے نہیں رکھا ہوا، غیر قانونی طور پر پولیس کے پاس ہے۔
پہلے ایف آئی آر کٹتی ہے پھر گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہوا ہے پہلے گرفتاری کی گئی ہے اور بعد میں ایف آئی آرکاٹی گئی ہے۔ پولیس ملزم کو جج کے سامنے اس لیے پیش کرتی ہے کہ ہمیں اس کا لیگل ریمانڈ چاہیے کہ ہمیں اس سے مزید کچھ اگلوانا ہے۔ گرفتاری کے بعد ملزم کا ابتدائی بیان پولیس کے پاس ہی ریکارڈ ہوگا، مجسٹریٹ کے سامنے عام فوجداری کے ملزمان کا بیان ہوتا ہے، پولیس اسلحہ ریکوری کے لیے اور ساتھی ملزمان کے لیے ریمانڈ مانگتی ہے، جج نوعیت دے کر ریمانڈ دیتا ہے ورنہ اسے جودیشل کردیا جاتا ہے۔ اب اگراس ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیاگیا تو یہ پولیس ملزم اور سسٹم دونوں کے ساتھ زیادتی کررہی ہے۔ اب اگر پولیس نے گرفتاری ڈال دی ہے، تو پھر پولیس کیسے اسے اپنے پاس رکھ سکتی ہے۔ پولیس ریکارڈ میں چیک کیا جانا چاہیے کہ اس کی گرفتاری ڈالی گئی ہے کہ نہیں۔
ملزم کا فائدہ اس صورت میں ہے کہ وہ جوڈیشل ہوجائے تو اس کی بیل ہوسکتی ہے۔ ابھی تو وہ کسٹڈی میں ہے جو کسی گنتی میں شمار نہیں۔ دفعہ 788 لگنے کی صورت میں تو یہ گھنائونا کیس بن گیا ہے۔ اب یہاں ملزم کے وارثان 491 کے تحت عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں کہ ہمارا بندہ انہوں نے پکڑ رکھا ہے، لیکن پیش نہیں رہے۔ پھر جج بیلف بھیج کر بندہ بازیاب کراتا ہے۔ عام روٹین میں ایسے کیس میں ملزم کا نقصان ہورہا ہوتا ہے، کیونکہ پیش نہ کرنے سے یہ احتمال ہوتا ہے کہ اس پر تشدد ہو رہا ہے۔ کھانا دے رہے ہیں یا نہیں دے رہے، کون کون سی زیادتی اس کے ساتھ ہورہی ہے؟ یہ تو کسی کو معلوم نہیںہے۔ ملزم محفوظ یا فائدے میں اس وقت ہوتا ہے جب وہ جیل چلا جاتا ہے۔ اب یہ کیس چونکہ کرمنل سے زیادہ سیاسی ہوگیا ہے تو سیاسی طور پر تو اس مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہ کرنا کسی کو فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے۔ ملزم کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے، الٹا اسے غیر قانونی طور پر رکھ کر اس کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ چاہے وہ ملزم ہے لیکن اس کے بھی تو کوئی حقوق ہیں۔ اس کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ اس کا حق ہے۔‘‘