روسی پسپائی پیوٹن حکومت خطرہ
 صدر پیوٹن کی جنگی حکمت عملی میں تبدیلی کے اشارے مل رہے رہے ہیں ۔فائل فوٹو

روسی پسپائی پیوٹن حکومت کیلیے خطرہ قرار

محمد علی:
امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک، یوکرین کے علاقے خیرسون سے روسی افواج کے انخلا کو صدر ولادیمیر پیوٹن کے زوال سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مغربی ایوانوں میں خوشی کے شامیانے بجائے جا رہے ہیں کہ روس کے طاقتور صدر کی اقتدار پر گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ اور یوکرین جنگ میں اسے بھاری عسکری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امریکی جنرل مارک ملی بھی 9 ماہ سے جاری تنازعے میں روسی فوجی ہلاکتوں کے گمراہ کن اور من گھڑت اعداد و شمار پیش کرکے پیوٹن کے کیمپ میں مایوسی پھیلانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جبکہ خود امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین جنگ سے متعلق اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ روسی فوج میں سنجیدہ مسائل چل رہے ہیں۔ ادھر روسی افواج نے یوکرین میں اپنے مضبوط گڑھ خیرسون کا علاقہ چھوڑ دیا ہے اور اب وہ دریائے دنیپر کے دوسرے جانب مورچہ بند ہیں۔ اس اقدام کو صدر پیوٹن کی وار اسٹریٹریجی میں تبدیلی بھی تصور کیا جا رہا ہے، کیونکہ موسم سرما کے دوران روسی فورسز کو اپنا دفاع مستحکم رکھنے کیلئے محاذ جنگ سے پیچھے ہٹنا تھا۔ غیر جانبدار ماہرین اس حکمت عملی کو پسپائی کے بجائے روس کیلئے موثر اور یوکرین کیلئے چیلنجنگ قرار رہے ہیں۔ وار ایکسپرٹس کی رائے ہے کہ دریا دنیپر کے دوسری جانب جمع ہونے سے روس کے پاس اب دفاع کیلئے محدود محاذ ہے، لہٰذا یوکرینی فورسز زیادہ تعداد میں روسی دستوں کو نشانہ بناکر ہلاک نہیں بنا سکیں گی۔
عالمی میڈیا ٹرینڈ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی اتحادیوں میں روس کے طاقتور صدر کی 22 سالہ بالادستی کے خاتمے کی تمنا ایک بار پھر شدت سے جاگ اٹھی ہے۔ ویسے بھی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود روس کی اقتصادی حالت بہتر ہے اور کوئی زوردار اپوزیشن کی تحریک دور دور تک اٹھتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس صورتحال میں خیر سون سے روسی انخلا مغربی قوتوں کیلیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔

خیر سون سے روسی انخلا کو مغربی ممالک اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے صدر پیوٹن پر دباؤ بڑھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق روس کی پسپائی ماسکو کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ کیونکہ خیرسون شہر یوکرین کا واحد علاقائی دارالحکومت تھا، جو جنگ کے آغاز کے بعد سے روسی ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ اس ضمن میں برطانیہ نے جی 20 اجلاس کے موقع پر روس کیخلاف بھرپور مزاحمت کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارتی نژاد وزیر اعظم رشی سونک انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہونے والی جی 20 سمٹ میں روسی صدر پیوٹن کو ان کے روبرو للکاریں گے اور ان کی پالیسیوں سمیت نظام حکومت کی مذمت کریں گے۔ یہ کسی بھی عالمی فورم پر روس کی مخالفت کا پہلا واقعہ ہوگا۔ دوسری جانب کریملن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق صدر پیوٹن جی 20 اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے اور ان کی جگہ روسی وزیر دفاع سرگئی لاروف روس کی نمائندگی کریں گے۔

برطانیہ نے کہا کہ خیرسون شہر میں کریملن کی ’’اسٹرٹیجک ناکامی‘‘ خوش آئند ہے۔ جو روسی عوام میں یوکرین جنگ کے بارے میں شکوک پیدا کرے گی۔ برطانوی وزیر دفاع بین ویلس نے ہفتے کو جاری ایک بیان میں کہا کہ روس کی جانب سے خیرسون سے انخلا کا اعلان ان کیلئے ایک اور اسٹریٹجک ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ فروری سے روس خیرسون پر قبضے کے علاوہ اپنے کسی بڑے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ بین ویلس نے کہا کہ اس حملے سے روس کو محض بین الاقوامی تنہائی اور تذلیل کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور عالمی برادری ان (یوکرین) کی حمایت جاری رکھے گی۔ اگرچہ ہم اس انخلا کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی روسی فیڈریشن کی طرف سے لاحق مسلسل خطرے کو کم نہیں سمجھے گا۔ امریکہ نے بھی یوکرین کے بحیرہ اسود کے ساحل پر آباد اس شہر سے روسی انخلا کو ایک غیر معمولی فتح کے طور پر سراہا ہے۔

امریکی اور برطانوی میڈیا کے مطابق روس کو ستمبر کے آغاز سے ہی میدان جنگ میں بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یوکرین کی فوجیں روس کی اگلے محاذ پر موجود فوج کو ناکامی سے دوچار کرتے ہوئے اور شمال مشرق اور جنوب کے علاقے واپس لے رہی ہیں۔ ادھر روس کے وزیر دفاع سرگئی لاروف نے تازہ کشیدگی کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی خطے کو جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے واضح موقف اپنایا کہ امریکہ یوکرین تنازعے کو جنگ کا ایندھن بنا رہا ہے۔ امریکہ کی چال ہے کہ روس اور چین کو کنٹرول کرنے کیلیے جنوب مشرقی ایشیا میں ملٹرائزیشن کرے۔