نواز طاہر:
وزیرآباد حملہ کیس کی تحقیقات عملی طور پر رُک گئی ہیں۔ جبکہ حملے کا ایک ملزم نوید انسداد دہشت گردی کے شعبے کے پاس زیر تفتیش ہے۔ لیکن وہاں بھی تفتیشی عمل آگے نہیں بڑھا اور ملزم تاحال جسمانی یمانڈ پر ہے۔
یاد رہے کہ تین نومبر کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میں فائرنگ سے پی ٹی آئی کا ایک کارکن معظم گوندل جاں بحق اور عمران خان سمیت پندرہ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ جس کی ایف آئی آر تھانہ سٹی وزیر آباد میں وقوعہ کے چار روز بعد سات نومبر کو سپریم کمورٹ کی ہدایات کی روشنی میں تھانہ انچارج سب انسپکٹر عامر شہزاد کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔ جبکہ پی ٹی آئی اس معاملے میں وزیراعظم، وزیر داخلہ اورعسکری ادارے کے ایک افسر کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر مصر ہے۔
اس واقعے کے فوری بعد وفاقی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا اعلان کیا تھا۔ پنجاب حکومت نے بھی یہی اعلان دہرا کر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی۔ اسے چوبیس گھنٹوں میں معاملے کی تحقیقات کرکے مقدمہ درج کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔ لیکن بعد میں جے آئی ٹی خود ہی تحلیل بھی کر دی اور دوبارہ نئی تشکیل دی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی طرف سے پولیس کے صوبائی سربراہ فیصل شاہکار کی درخواست پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی سربراہی ڈی آئی جی (اسٹیبلشمنٹ) سی پی او لاہور طارق رستم چوہان کر رہے تھے۔ جس کے چار اراکین میں ڈیرہ غازی خان کے ریجنل پولیس آفیسر سید خرم علی، اے آئی جی مانیٹرنگ احسان اللہ چوہان، انویسٹی گیشن برانچ وہاڑی کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد ظفر بزدار اور سی ٹی ڈی لاہور کے ایس پی نصیب اللہ خان شامل تھے۔ لیکن پھر اسے توڑ کراسی کمیٹی کے رکن ڈیرہ غازی خان کے ریجنل پولیس آفیسر سید خرم کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی۔ اے آئی جی مانیٹرنگ احسان اللہ چوہان، ایس پی پوٹھوہار ڈویژن راولپنڈی ملک طارق محبوب اور ایس پی سی ٹی ڈی لاہور نصیب اللہ خان اس کے اراکین میں شامل کئے گئے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ نے ایک مراسلے کے ذریعے پنجاب حکومت سے کہا تھا کہ جے آئی ٹی میں وفاقی ادارے کو بھی شامل کیا جائے۔ جے آئی ٹی نے ابھی کام شروع ہی نہیں کیا تھا کہ اسے تحلیل کر دیا گیا اور جو بھی جے آئی ٹی بنائی۔ وہ پی ٹی آئی کی اپنی ہی پنجاب حکومت نے تشکیل دی۔ جس میں کسی وفاقی ادارے یا ایجنسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ جبکہ عمومی طور پر جے آئی ٹی میں وفاقی اداروں کی نمائندگی شامل ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق جب بھی جے آئی ٹی بنائی گئی تو عمران خان نے اپنے قریبی ذرائع سے حاصل ہونے والی بریفنگ کے بعد اس پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا اور کمیٹی تحلیل کر دی گئی۔ جبکہ کمیٹی میں شامل تمام افراد کی پیشہ ورانہ استعداد اور ساکھ پر بھی سوالیہ نشان نہیں تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی آئی جی (اسٹیبلشمنٹ) سی پی او لاہور طارق رستم چوہان پر بھی ایک اعتراض یہ تھا کہ ان کا نام آئی جی فیصل شاہکار نے تجویز کیا تھا۔ جبکہ فیصل شاہکار پر اعتراض و تحفظات اور عمران خان کی ناراضگی اس امر پر ہے کہ پولیس سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے پی ٹی آئی کے حسبِ منشا ایف آئی درج کرانے کے معاملے میں اپنا انتظامی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا۔ طارق رستم چوہان کے بعد ڈیرہ غازی خان کے ریجنل پولیس آفیسر سید خرم علی کو کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ جن کا پروفیشنل پروفائل بھی انتہائی مضبوط ہے۔ جو پنجاب کے علاوہ سندھ میں بھی فرائض انجام دے چکے ہیں اور پروفیشنل دیانتدار افسر کی شہرت کے حامل ہیں۔ لیکن عمران خان نے اس کمیٹی پر بھی اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔
ذرائع کے مطابق اگرچہ عمران خان نے کھل کر اظہار نہیں کیا۔ لیکن وہ پولیس پر اعتماد ہی نہیں کرتے اور مقدمے کا اندراج سیاسی دبائو کے ذریعے عدالتی حکم سے چاہتے ہیں۔ تاکہ عدالتی حکم سے مقدمہ درج ہونے کے بعد حسبِ خواہش اس کا سیاسی استعمال بھی کیا جا سکے اور تحقیقاتی افسر بھی مرضی سے لگایا جا سکے۔ واضح رہے کہ وزیرآباد کا واقعہ پیش آنے کے بعد کابینہ کے اجلاس میں آئی جی پولیس نے اس واقعے میں پولیس کی غفلت سے زیادہ پی ٹی آئی کی قیادت اور لانگ مارچ کی انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ جس پر کابینہ کے بعض اراکین نے برہمی کا اظہارکیا تھا۔ جس پر فیصل شاہکار نے بحیثیت آئی جی مزید کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے وفاق سے اپنی خدمات واپس لینے کی درخواست کی تھی۔ تب سے لیکر اب تک وہ صرف عمومی نوعیت کے معاملات ہی دیکھ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق عمران خان کسی صورت بھی جے ٹی آئی میں وفاقی دارے کی نمائندگی نہیں چاہتے اور صوبائی حکومت نے وزیراعلیٰ کی مشاورت کے بعد تاحال اس میں وفاق کے کسی دارے کو شامل نہیں کیا۔ اس معاملے کو عدالتوں میں لے جانے کیلئے پی ٹی آئی نے چیئرمین عمران خان کے کہنے پر اپنی اکثریت رکھنے والی اسمبلیوں سے قرار دادیں منظور کرانے کے بعد انہی کی بنیاد پر اراکین کی طرف سے سپریم کورٹ کی تمام رجسٹریوں میں آئینی درخواستیں دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ پنجاب اسمبلی پہلے ہی خصوصی اجلاس کے ذریعے یہ قرارداد منظور کر چکی تھی اور اس فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا شیڈول تبدیل کر کے پیر کی صبح نو بجے اجلاس طلب کیا گیا اور پہلی باراراکین کو اسمبلی میں پُرتکلف ناشتہ بھی کروایا گیا۔ اس کے بعد قرارداد منظور کروائی گئی اور پھر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اراکین اور رہنمائوں نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں بھی آئینی درخواست دائر کی۔ جس میں نامزد ملزمان کے نام شامل نہ کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے اوراس میں اعظم سواتی کی مبینہ ویڈیو اور ارشد شریف کے قتل کی عدالتی تحقیقات کرانے کے علاوہ ارشد شریف کے پسماندگان کی داد رسی کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
شاہ محمود قریشی، عثمان بزدار، شفقت محمود سمیت پچیس سے زائدارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی طرف سے دائر کی جانے والی اس درخواست میں سپریم کورٹ سے ان معاملات پر سوموٹو نوٹس لیکر کاروائی کرنے کی اپیل کی گئی۔ دوسری جانب تھانہ سٹی وزیر آباد میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمہ کی تفتیش بھی رکی ہوئی ہے اور ملزم کے زیر حراست ہونے کے باوجود تفتیش کا عمل آگے نہیں بڑھ رہا۔ بلکہ سی ٹی ڈی کی ٹیم بھی جے آئی ٹی کی کارروائی منتظر ہے۔